‘Due to Online Hate Speech, Women’s Participation in Khyber Pakhtunkhwa Politics Remains Extremely Low’ by Amina Salarzai
June 19, 2025‘Digital Hate, Real Harm: The On-the-Ground Impact of Online Hate Against Afghan Refugees in Pakistan’ by Asma Kundi
June 19, 2025سلیبرٹی خواتین کو سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر غیرمتناسب طور پر نشانہ بنایا جاتا ہے جس میں خواتین کے خلاف نازیبا الفاظ سمیت نسل پرستی کی آمیزش بھی شامل ہوتی ہیں۔ مینا شمس
خیبر پختونخوا کی مقبول ڈرامہ اداکارہ اور پروگرام کمپئر مینا شمس مزید بتاتی ہیں کہ آن لائن نفرت کسی بھی وقت حقیقی شکل میں سامنے آسکتا ہے اس کو مذاق نا سمجھا جائے ماضی میں بہت سی ایسی مثالیں موجود ہیں جوآن لائن دھمکی کے بعد جان کی بازی ہار چکی ہیں ۔
یاد رہے کہ حالیہ سینٹر فار کاونٹرنگ ڈیجیٹل ہیٹ کے تحقیق کے مطابق ٹویٹر اور انسٹاگرام اکاونٹس جس پر خواتین کے خلاف نفرت انگیز پیغامات تھے خواتین کی جانب سے کی گئ شکایت کے باوجود موجود ہے۔
کشیدگی کے دوران پاک بھارت کی جانب سے مختلف میمز، نفرت انگیز کمنٹس
محلے کی لڑائیوں میں مرد خواتین کو گالی دے کر مردانگی کا مظاہرہ کرتے رہتے ہیں لیکن حالیہ پاک بھارت کشیدگی کے دوران بھی یہ روایت برقرار رہی۔ دونوں ممالک کی جانب سے مختلف میمز کے زریعے سرحد کے دونوں پار سوشل میڈیا کے پلیٹ فارمز یوٹیوب ،ایکس،انسٹا گرام، ٹک ٹاک پرنفرت انگیز کیمنٹس کے زریعے ایک دوسرے اور خاص کر خواتین فنکاروں کو نشانہ بنایا گیا۔
بھارت کی جانب سے یوٹیوب پر ایک ویڈیو میں ایک لڑکا کہتا ہے کہ ہانیہ عامر کو چھوڑ کر باقی پاکستانیوں کی بینڈ بجا دیں گے۔
دوسرا بھارتی کہتا ہے کہ مائرہ خان جنگ جیتنے کے بعد میری ہوگی۔
اسی طرح پاکستانی بھی کسی سے پیچھے نہیں رہے یوٹیوب پر ایک لڑکے نے کہا کہ جنگ کے بعد پرینکا چوپڑا میری ہوگی پہلے
سے بتا رہا ہوں میں، بعد میں کوئی رولا نہ ڈالے۔
پاکستانی ایک صارف کہتے ہیں کہ کیا جنگ میں کترینہ کیف بھی آئے گی؟
بعض نے تو گائے کے ساتھ ویڈیو بنائی اور ساتھ میں کہا کہ آپکی ماں میرے پاس ہے یا میرے قبضے میں ہے اور کسی نے تو چومی بھی لی۔
انڈین پائلٹ شیوانی سنگھ جس کے حوالے سے پاکستان کا دعویٰ ہے کہ گرفتار ہوئی ہیں ایک پوسٹ میں ہے کہ
جبکہ دوسرا صارف نے کچھ یو کمنٹ کیا کہ
سنا ہے دودھ اپنا لے کر آئی ہے۔
خواتین کو مرد کی نسبت زیادہ آن لائن غنڈہ گردی کا سامنا
خیبر پختونخوا کی مقبول ڈرامہ اداکارہ اور پروگرام کمپئر مینا شمس نے سوشل میڈیا کو آن لائن غںڈہ گردی کہا ہے کہ ان کی اہمیت اپنی جگہ پر لیکن خواتین کو مرد کی نسبت کافی مسائل کا سامنا ہے مرد نے سائنس اور ٹیکنالوجی میں کافی ترقی کی ہے لیکن یہ ٹرولنگ، ہراسمنٹ، نفرت انگیز اور تعصبانہ رویوں کی وجہ سے خواتین ٹیکنالوجی میں کافی پیچھے ہیں۔
مینا شمس کے مطابق اس سائنس و ٹیکنالوجی کے دور میں تعصبانہ رویوں سے آن لائن غنڈہ گردی نے جنم لیا ہے اور جہاں تک پاک بھارت کشیدگی کے دوران سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر خواتین اور خاص کر فلمی ڈرامہ فنکاروں کے حوالے سے جو نفرت اور اخلاقیات سے گرا ہوا رویہ رکھا گیا وہ اب معمول بن چکا ہے۔ ریپ اور جنسی عوامل کی طرف اشارے یا کوڈ ورڈ میں بے ہودہ مذاق کیا گیا جو بہت ہی افسوس کی بات ہے۔
مینا شمس نے کہا کہ فنکارامن کے سفیر ہوتے ہیں۔ خواتین چاہے جس ملک، قوم، رنگ و نسل سے ہوں قابل احترام ہوتی ہیں لیکن موجودہ دورمیں آن لائن غنڈہ گردی کا راج ہے خواتین کے جسمانی خدوخال، یہاں تک کہ رنگ پرستی اور ہوموفوبیا تک بات پہنچ گئ ہے۔
ہر مذہب اور قوم میں خواتین قابل احترام ہوتی ہیں
خیبرپختونخوا سے تعلق رکھنے والی اردو اور پشتو ڈرامہ آرٹسٹ شازمہ حلیم جنہوں نے مختلف پی ٹی وی، ریڈیو پاکستان، خیبر ٹی وی کے ڈراموں میں بطور اداکارہ کام کیا ہے بتاتی ہیں کہ پاکستان اور بھارت کشیدگی کے دوران، تین دنوں میں ہونے والی جنگ کے دوران اور جنگ کے بعد مختلف سوشل میڈیا پلیٹ فارم جس میں فیس بک، انسٹاگرام، ٹک ٹاک پرمختلف قسم کے کمنٹ دیکھنے کو ملے جس سے شاید سرحدوں پر کم اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پرجنگ کے تاثرات اور نفرت انگیز باتیں زیادہ دکھائی دی۔ اور پھران سب میں خواتین کو زیادہ ٘مذاق کا نشانہ بنایا گیا خاص کر کے فلمی ڈرامہ اداکاراوں کو زیادہ نفرت انگیز الفاظ سے یاد کیا گیا جس کی وہ مذمت کرتی ہیں جنگ میں ویسے بھی انسانیت کی ہار ہوتی ہے جن ممالکوں کے درمیان بھی جنگ لڑی جاتی ہے دونوں طرف انسانیت کا خون ہوتا ہے لیکن ان لڑائیوں میں ماں بہن کو غلط القابات اورالفاظ سے پکارناغلط ہے۔ کشیدگی کے دوران سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر ایکٹریسز کو بہت زیادہ منفی انداز سے ہائی لائٹ کیا گیا۔
شازمہ نے کہا کہ جنگ چاہے جس کے بھی درمیان ہو قبیلوں کے درمیان ہوعلاقائی سطح پہ ہو یا کسی دوسرے ممالک کے ساتھ ہو لیکن خواتین کو ہرمذہب اورخاص کراسلام میں اعلی مقام حاصل ہے اور اس کوعزت دی گئی ہے۔
گلوکارہ یا پھر گھریلو خاتون ہے ہم ایک ایسے معاشرے میں رہ رہے ہیں جہاں عورت کو عزت دی جاتی ہے تو اداکارہ یا گلوکارہ بھی خاتون ہی ہے چاہے وہ سرحد کے اس پار ہو یا اس پار قابل احترام ہے۔
پاکستان کے لوگوں نے سرحد اس پارپر جبکہ ہندوستان کے لوگوں نے سرحد اس پار اداکاراوں جیسے ماہرہ خان، ہانیہ عامر، کترینا وغیرہ کو مال غنیمت یا جنگ میں آئے گی یا نہیں آئے گی جیسے الفاظ استعمال کیے ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ ہندوستانیوں کے حوالے سے تو کچھ نہیں کہنا چاہتی لیکن پاکستانیوں سے یہ توقع نہیں رکھتی عورت قابل احترام ہوتی ہے چاہے وہ پاکستان کی ہو ہندوستان کی ہو یا پھر امریکہ کی ہو۔ شازمہ حلیم
پاکستان بھارت کشیدگی میں آن لائن میڈیا اداروں اور صحافیوں کا منفی کردار کیوں رہا
اسلام آباد سے تعلق رکھنے والی بشریٰ اقبال حسین جو جرنلزم ٹرینر ہے بتاتی ہیں کہ میڈیا اداروں اور ایک صحافی کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ جب وہ رپورٹ بنا رہا ہوتا ہے یا کوئی خبر دے رہا ہوتا ہے تو اس کو تعصبانہ رویہ اور نفرت سےدور رکھیں۔ لوگوں کو حقائق سے آگاہ رکھیں۔
بشریٰ اقبال نے کہا کہ بدقسمتی سے انڈیا اور پاکستان میں جب بھی کبھی تناؤ کی کیفیت آتی ہے تو ہندوستان جو کہ ایک بڑا ملک ہے ان کے پاس پاکستان کی نسبت میڈیا ہاؤسز بھی زیادہ ہیں وہ چاہے اخبارات کی صورت میں ہو ٹیلی ویژن کی صورت میں ہو یا سوشل میڈیا کی صورت میں ہو۔ تو ہمیشہ سے انہوں نے جنگی تناؤ، جنگی جنون کی بات کی اور بغیرحقائق کے بیان کیے کچھ توڑ مروڑ کر کہانیاں پیش کی وہ خود جنگ کے لیے اکسا رہے ہوتے ہیں اپنے ہی لوگوں، عوام، حکومت اور اپنی افواج کوکہ وہ جنگ چھیڑ دیں۔
بشریٰ اقبال کے مطابق انڈین میڈیا جنگ، نفرت کی سنسنی باتیں بہت لاؤڈ ہو کر کرتے ہیں اور یہ بھی ایک پروپیگنڈا ٹول کا حصہ ہے کہ آپ لاؤڈ ہو کر اتنا زیادہ جھوٹ بولیں۔ بار بار بولیں کہ آپ کے فالورز جھوٹ کو حقیقت اور سچ سمجھنے لگ جائیں۔
وہ مزید کہتی ہیں کہ جنگ جیسی صورت حال میں دوایٹمی ممالک کی میڈیا اداروں پربہت بڑی ذمہ داری عائد ہو جاتی ہے کہ حقائق پر مبنی رپورٹ دیں ۔ اس روایتی جنگ میں دونوں طرف انسانی جانیں جاتی ہیں تو اس کے اندر بہت بڑی ذمہ داری میڈیا پلیٹ فارمز کی ہوگی لیکن بعض لوگوں نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم کو نفرت انگیز سپیچ کے لیے استعمال کیا، سچائی اور حقائق پر مبنی بات نہیں کی اور انہوں نے جنگی جنون کو ہوا دی۔
پاک بھارت کشیدگی کے دوران پاکستان کی نسبت انڈین میڈیا نے بہت زیادہ غیرذمہ دارانہ رویہ رکھا ایکسٹریم ہونے کے ساتھ ساتھ بہت فیک نیوزدی جو کسی بھی ملک اور خود میڈیا ادارے کے لیے مذاق اور نقصان کا باعث بنتا ہے۔
بشریٰ اقبال کہتی ہیں کہ پاکستان اور انڈیا کشیدگی کے دوران دونوں طرف سے جس طرح اس جنگ اور خاص کر میڈیا وار میں خواتین کو لے کر ٹرولنگ اور منفی رویہ رکھا گیا قابل مذمت ہے۔ ہندوستان کی فلم انڈسٹری دنیا کی بہت بڑی فلم انڈسٹری ہے بالی وڈ فلم سٹار نا صرف انڈیا میں بلکہ پاکستان میں بھی کافی مقبول ہے اور ان کے فین موجود ہیں ان کی عزت کرتے ہیں اسی طرح پاکستانی ڈرامہ آرٹسٹ ہندوستان میں کافی مقبول ہیں وہاں ان کوعزت دی جاتی ہے لیکن دونوں ممالک میں کچھ ایسے عناصر موجود ہیں جن کے اندر کی نفرت میمز وار میں نظر آئی بلکہ وہ ان سیلبرٹی کو اپنی ذاتی پراپرٹی دیکھ رہے تھے کہ خدانخواستہ حالات مزید خراب ہوکر لمبی جنگ چھڑجائے اور وہ خواتین پر قبضہ کر لیں۔
بھارت کی نسبت پاکستانی میڈیا غیرجانبدار رہا
پشاور یونیورسٹی شعبہ صحافت کے پروفیسر اور میڈیا اکیڈیمک ریسرچر ڈاکٹر بخت زمان انڈین میڈیا کی غیر زمہ دارانہ رپورٹنگ اور معلومات کے حوالے سے بتاتے ہیں کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ بھارت فلم انڈسٹری پوری دنیا پر راج کر رہی ہیں ان کی فلمیں اور کردار پوری دنیا میں شہرت رکھتے ہیں لیکن نیوز میڈیا بھی ان کی انٹرٹیمنٹ میڈیا کے زیراثر ہے۔ انڈین نیوز روم بھی اپنے ٹاک شوز، خبروں، تجزیوں میں بھی لوگوں کو انٹرٹین کرنا کا زیادہ خیال رکھتے ہیں بنسبت معلومات دینے کے۔
اگر بھارتی میڈیا کا موازنہ پاکستان سے کیا جائے تو پاکستان ایک سنجیدہ ملک ہے تو ہمارا میڈیا بھی سنجیدہ ہے۔
دوسری اہم وجہ بخت زمان یہ بتاتے ہیں کہ کسی بھی سماجی اور سیاسی حالات کا عوامی اثر اپنے لوگوں کے مزاج پر پڑتا ہے۔ ان میں میڈیا سے منسلک لوگ بھی شامل ہیں۔ انڈین میڈیا اداروں کی سوچ بھی انتہا پسندانہ اور انٹرٹیمنٹ اپروچ رکھنے والا ہے۔ تاکہ دنیا بھر کے لوگ ان کی طرف متوجہ ہوجائیں۔ اس لیے حالیہ پاک بھارت کشیدگی میں بھی انڈین میڈیا حقائق کی جگہ فیک، اور غیرزمہ دارانہ معلومات دیتا رہا۔ جبکہ پاکستان کی میڈیا اداروں نے حقائق پر مبنی معلومات فراہم کی۔
ارشد یوسفزئی جو 16 سالوں سے پاک افغان اور پیس پروسس پر کام کرتے ہیں انہوں نے مختلف قومی اور بین الااقوامی پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے ساتھ کام کیا جس میں انگلستان اور جرمنی سمیت انڈیا ٹوڈے اور انڈیا ٹائم بھی شامل ہیں۔ بھارتی میڈیا کی من گھڑت خبروں کے حوالے سے بتاتے ہیں کہ
پا کستان اور بھارت کے درمیان اس طرح کے واقعات ہوتے رہتے ہیں جس کا الزام فورا ہندوستان پاکستان پر لگا دیتا ہے۔
ارشد کے مطابق ہمیشہ سے انڈین میڈیا ریٹنگ کے لیے فیک نیوز کا سہارا لیتا ہے اس کی سب سے اہم وجہ یہ بھی ہے کہ اس خطے میں سب لوگ جنگ کی نیوز پسند کرتے ہیں دیکھی جاتی ہے سنی جاتی ہے اپنی فوج کی بہادری کے قصے پسند کرتے ہیں جبکہ اپنے حریف کے خلاف کمزوری کی نیوز پسند کرتے ہیں۔ دوسری اہم وجہ یہ ہے کہ ہندوستانی میڈیا پر حکومت اور سکیورٹی فورسز کی جانب سے کافی دباؤ ہے ۔
بی جے پی کی حکومت جب سے ہندوستان میں آئی ہے پورا میڈیا کمزور پڑ گیا ہے حالانکہ ہندوستانی میڈیا اور ان کے صحافیوں کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ وہ بہت آزاد دانہ بات کرتے ہیں، اب بھی چند ایسے صحافی ہیں جو بغیر کسی خوف کے حق کی بات کرتے ہیں۔ لیکن زیادہ تر صحافی حکومت کے دباؤ میں ہے اور وہ اسی دباؤ کے تحت جھوٹی خبریں، تعصبانہ رویہ، نفرت انگیز تحریر یا فیک نیوز کا سہارا لیتے ہیں۔
ارشد یوسفزئی نے مزید کہا کہ بھارت کی جانب سے تمام غلط اور غیر قانونی فیصلوں کو الیکٹرانک، پرنٹ میڈیا اور فیس بک نے، پردہ ڈالنے کے لیے سپورٹ بھی کیا، اورغلط انداز میں غلط نیوز کو پیش کیا جاتا رہا۔ میڈیا صحافت کو صحیح انداز میں پیش کرنے کی بجائے میڈیا جنگ شروع کی جوجنگ کو بڑھاوا دے رہا تھا۔ اپنی میڈیا ٹاک میں پاکستان سے کسی کو بھی بات کرنے کا نا ہی موقع دیا جاتا تھا نہ ہی ان کی جانب سے حقائق اور دلائل پیش کیے جاتے تھےجو کہ صحافت کے لیے کافی نقصان دہ ہیں بلکہ اپ لوگ یوں کہہ سکتے ہیں کہ صحافت کا جنازہ نکال رہے ہیں جو بالکل غیر قانونی اورغیر صحافتی انداز ہیں۔ اس لیے بھارتی میڈیا کو مزید اپنا امیج خراب نہیں کرنا چاہے حقائق پر مبنی صحافت کریں۔
دوسری جانب بشریٰ اقبال نے بھی کہا کہ پاکستان میں میڈیا نے بہت بہتر کام کیا سوشل میڈیا نے بھی انڈیا کی نسبت کافی زمہ دارانہ کام کیا لیکن اسکے باوجود ایک بہت بڑی تعداد ایسی بھی تھی جو ایسے مردوں پر مشتمل تھی جنہوں نے خواتین کے لیے غیر مہذب بات کی۔ خواتین کے رنگ پر کمنٹ پاس کیے ان کی جسم کے حوالے سے بات ہوئی ان کی خدوخال پر کمنٹس میں کھلم کھلا اظہار کیا گیا تو یہ ایک الارمنگ سچویشن ہے کیونکہ اگر آپ خواتین چاہے دشمن کی ہو یا اپنے ہی ملک کی ہو، عزت کرنی چاہے۔
ایک انڈین فوجی افسر فضائیہ کے حوالے سے جس طرح سے سائبر ہراسمنٹ ٹرولنگ ہوئی جو کہ بہت بری بات ہے کچھ لوگوں نے اپنی تربیت کا اظہار کیا اور انہوں نے خواتین پر نفرت انگیز اور طنزیہ کمنٹ پاس کیے اور میمز بنائی۔ ایک عورت ایک ماں، ایک بہن، بیٹی کے طور پر وہ بہت ہی لمحہ فکریہ تھا۔
آن لائن نفرت انگیز پیغامات کو کیسے کنٹرول کیا جاسکتا ہے
اس حوالے سے انڈیویجول لینڈ کے خصو سیف اللہ فیکٹ چیکر اینڈ لٹریسی ایڈوکیٹ نے کہا کہ حکومت اور سوشل میڈیا کمپنیوں کو چاہے کہ وہ میڈیا کنزیومرز اور پروڈیوسرز کو زمہ دار بنائے اس سلسلے میں کافی کوشش کی گئ لیکن ابھی تک ان کو کنوینس نہیں کیا گیا۔ جوکہ ایک آئیڈل مکینزم ہے جو ہوتا نہیں ہے۔
باہر کی دنیا میں یہ ہے کہ کہ سیلف ریگولیٹیکنزم ہوتا ہے کہ جنرلسٹ کو اتنا ٹرین کیا جاتا ہے کہ وہ خود غلط خبر کی تشریح نہیں کرتے ہیں اپنی خبر میں الفاظ کا استعمال صحیح کرتے ہیں۔ نفرت انگیز مواد نشر نہیں کرتےلیکن ہمارے ہاں سیلف میکنزم کہیں پہ کامیاب ہوتا نظر بھی نہیں آرہا اوریہاں کوشش بھی نہیں کی جاتی۔ جب سوشل پلیٹ فارمز کو کنٹرول کرنے کا اختیاراداروں کے پاس آ جاتا ہے پھر وہ اپنے حساب سے کنٹرول کرتے ہیں وہ بھی ایک بہتر حل نہیں ہے۔
جہاں تک جنگی حالات میں بھی لوگ چونکہ جذباتی ہیں وہ کسی بھی خبر کو بغیر کسی تصدیق کے شئیر یا پھیلاتے ہیں۔ ان حالات میں ایک صحافی کی تربیت بہت ضروری ہوجاتی ہے۔ سوشل میڈیا آڈیز پر نظر رکھا جائے کہ وہ فیک تو نہیں ہے۔ جتنا کنزیومر ذمہ دار ہوگا اتنا ہی سوشل میڈیا پلیٹ فارم کی کارکردگی بہتر ہوگی۔
آن لائن ہیٹ سپیچ کو کنزیومرز اور سوشل میڈیا کو رسپانسبل کرنے سے کنٹرول ہوسکتا ہے جو کہ بہت ہی مشکل ہے۔
خواتین کے خلاف آن لائن نفرت کو سنجیدگی سے لیا جاتا ہے، سوشل میڈیا کا دعویٰ
سوشل میڈیا کمپنیوں کا دعویٰ ہے کہ وہ خواتین کے خلاف آن لائن نفرت کو سنجیدگی سے لیتی ہیں اور صارفین کے لیے قوانین ہیں جس میں نفرت پیغامات اور گالم گلوچ والے اکاونٹس کو معطل کرنا یا بند کرنا شامل ہیں۔
لیکن وہ اکثر ایسا نہیں کرتے۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر کسی کو اب تک موصول ہونے والے کچھ بدترین پیغامات کی اطلاع دینے کے باوجود بھی موجود ہوتی ہیں جن میں گھر آ کر ریپ کرنے اور خوفناک جنسی فعل کی دھمکیاں وغیرہ شامل ہیں۔



