‘Don’t Take It as a Joke—Online Hate can Manifest in Real Life too’ by Naheed Jahangir
June 19, 2025AI, Platform Profiteering Through Hate, and the Feminist Reckoning Pakistan Urgently Needs by Hija Kamran
June 20, 2025میری چھوٹی بہن صرف بارہ سال کی ہے۔ ہم نے کبھی سوچا نہ تھا کہ افغانستان چھوڑ کر پاکستان آنے کے بعد بھی زندگی مشکل ہی رہے گی، مگر یہاں آ کر اُسے احساس ہوا کہ صرف سرحد پار کرنے سے حالات نہیں بدلتے۔ ہم سات افراد ایک چھوٹے سے کمرے میں رہ رہے ہیں، جہاں کرایہ 2000 روپے فی رات ہے۔ کیا یہی وہ امید تھی جس کے ساتھ ہم اپنا ملک چھوڑ کر آئے تھے؟ صرف مالی مسائل نہیں ہیں آئے روز پولیس کی بدتمیزیاں اور عام لوگوں کی تمسخر اڑاتی نظریں ہمارا پیچھا کرتیں ہیں، یہ کہنا تھا بی بی مسکا، کا جو ایک افغان طالبہ ہے اور راولپنڈی میں پناہ گزین ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں کچھ لوگ ہمیں پسند نہیں کرتے اور چاہتے ہیں کہ ہم یہاں سے واپس چلے جائیں۔ مگر وہ نہیں جانتے کہ افغانستان میں ہم پر زندگی اور بھی تنگ ہو جائے گی۔
زکیہ، ایک افغان سوشل ایکٹیوسٹ جو اسلام آباد میں مقیم ہیں، بتاتی ہیں کہ انھوں نے سوچا تھا کہ پاکستان میں وہ لوگ محفوظ ہوں گے، لیکن سوشل میڈیا پر ہمیں مسلسل نشانہ بنایا جاتا ہے۔ بعض اوقات یہ نفرت آن لائن سے نکل کر ہمارے گھروں تک پہنچتی ہے۔ جب سے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مہاجرین کے بارے میں سخت پالیسیاں اپنائی ہیں ، پاکستان نے بھی اپنے روپئے سخت کر لئے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ جب بھی دروازہ بجتا ہے ایک خوف کی لہر پورے وجود میں دوڑ جاتی ہے۔ کیونکہ آنے والا کوئی پولیس والا ہوتا ہے جو گھر کی چاردیواری کی حرمت نہیں جانتا۔ ملک بدر ہونے کا خوف اور ان پولیس والوں کی گندی نظریں اور چبھتے جملے ہماری بے بسی کے احساس میں اضافہ کردیتے ہیں۔
بی بی مسکا اور زکیہ کی طرح اور بہت سی افغان خواتین ہیں جو افغانستان میں طالبان کی حکومت کے بعد پاکستان ہجرت کر کے اس امید پے آئیں کہ امریکہ، یورپ یا کسی اور ملک جا کر اپنی زندگی کی نئی شروعات کریں گی مگر دنیا نے ان سے نطریں پھیر لیں، امریکہ کی پالیسی میں تبدیلی کے بعد باقی یورپی ممالک نے بھی مائگریشن کا عمل بہت سست کر دیا۔ اب یہ افغانی باشندے پاکستان کے رحم و کرم پر چھوڑ دئیے گئے۔ مگر پاکستان نے ہمدردی دیکھانے کے بجائے دہائیوں سے یہاں مقیم لوگ جن کے پاس افغان کارڈز بھی تھے ان کو بھی اپنے ملک واپس بھیجنے کا حکم سنا دیا۔
اس حکم کے بعد بہت سی افغان خواتین جن میں سروری بھی ایسی ہی ایک افغان خاتون ہے جس نے اپنی زندگی میں طالبان کی سختیوں کا سامنا کیا، اب پاکستان میں بھی پرسکون زندگی گزارنے سے قاصر ہیں۔
ڈی آر ایف سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ، ’پولیس دو بار ہمارے گھر آ چکی ہے، صرف اس لیے کہ ہمارا ویزا ختم ہو چکا ہے۔ میں خوف میں جیتی ہوں، نہ گھر سے نکل سکتی ہوں، نہ کسی سے رابطہ کر سکتی ہوں۔‘
’میرے شوہر مجھ پر واپس افغانستان جانے کے لیے دباؤ ڈال رہے ہیں، لیکن میں جانتی ہوں کہ وہاں میرا انجام کیا ہو گا۔جب پوچھا کہ شوہر کے دباؤ ڈالنے کی وجہ کیا ہے؟ کیا وہ پاکستان میں خوش نہیں تو ان کا کہنا کچھ یوں تھا، ’میرے شوہر کہتے ہیں کہ تم تو گھر میں ہوتی ہو میں باہر جاتا ہوں جہاں ہر وقت پولیس سے چھپتا ہوں اور چوروں کی طرح خود کو محسوس کرتا ہوں۔ سبزی کی دوکان پر بھی جاؤں تو لوگ پوچھتے ہیں کہ ابھی تک آپ لوگوں کو اپنے ملک واپس نہیں بھیجا، کچھ ہمدردی میں اور کچھ طنزیہ طور پر۔‘ وہ کہتے ہیں کہ اس زلت کی زندگی سے تو بہتر ہے کہ اپنے ملک میں ہم عزت سے مر جائیں، مگر اب بس واپس چلتے ہیں۔
سروری کا شوہر بھی ان لاکھوں افغانوں میں شامل ہے کہ بے عزتی اور نفرت کے خوف سے خود ملک چھوڑ جانا چاہتے ہیں۔
کئی افغان خواتین پاکستان میں نہ صرف مہاجر ہونے کے باعث بلکہ صنفی امتیاز کی وجہ سے بھی دباؤ کا شکار ہیں۔ نرگس، جو افغانستان میں خواتین کے حقوق کی علمبردار تھیں، اب اسلام آباد میں اکیلی اور بیماری کے ساتھ زندگی گزار رہی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ میں چھاتی کے کینسر کی مریضہ ہوں۔پیسے نہ ہونے کی وجہ سے دوا نہیں ملتی۔ بیماری کی وجہ سے میرا شوہر مجھے چھوڑ چکا ہے۔ جن لوگوں پر میں بھروسہ کر کے پاکستان آئی تھی وہ لوگ ایک ایک کر کے میرا ساتھ چھوڑ چکے ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ انسانی جان کی کوئی اہمیت نہیں ہے اور خاص طور پر عورت کی جان کی اگر وہ افغانی بھی ہو تو۔ میں خود کو ایک کھائی کے کنارے پر محسوس کرتی ہوں، نہ پیچھے جا سکتی ہوں، نہ آگے۔
یہ کہانیاں چیخ چیخ کے بتا رہی ہیں کہ کیسے انسانی ہمدردی کی مستحق خواتین مسلسل نفرت اور تعصب کا سامنا کر رہی ہیں۔ تحقیقات کے مطابق مسلسل نفرت اور تعصب کا سامنا انسان کی ذہنی صحت پر گہرے اثرات چھوڑتا ہے۔ خاص طور پر مہاجرین، جو پہلے ہی جنگ، نقصان، اور ہجرت کے صدمے سے دوچار ہوتے ہیں، مزید نفسیاتی دباؤ میں چلے جاتے ہیں، جیسا کہ ہم نے ایک دو واقعات دیکھے جہاں افغان نوجوانوں نے زہنی دباؤ میں آکر اپنی جان بھی لے لی۔
افغان پناہ گزینوں کے خلاف پاکستان میں تعصب اور نفرت کی تاریخ پرانی ہے، اور اس کی جڑیں ہمارے دماغوں میں حکومت کر چکی ہیں اور کئ اداروں کی مدد سے گزشتہ کئی سالوں سے آہستہ آہستہ میڈیا اور سوشل میڈیا کے زریعے جڑیں مظبوط بوئی ہیں۔ کہیں دہشت گرد حملہ ہو جائے تو زمہ داری سرحد پار سے آنے والے انتہا پسندوں پر لگا دی جاتی ہے، اسی طرح اگر شہر میں جرائم کا اضافہ ہو جائے تو الزام افغان شہریوں پر عائد کر دیا جاتا ہے اور حتی کہ ان کے آئی 9 سیکٹر میں واقع آبادیاں آپریشن کر کے گرا دی جاتیں ہیں۔
افغانستان میں دہائیوں سے جاری تنازعات کے نتیجے میں لاکھوں افغان شہری دنیا بھر میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے ہیں ، جن میں سے اکثریت اب بھی پاکستان میں مقیم ہیں۔ تاہم پاکستان کی حکومت کی جانب سے شروع کی جانے والی ’کریک ڈاؤن‘ پالیسی نے افغان مہاجرین کو ایک نئی انسانی بحران کی طرف دھکیل دیا ہے۔
صرف تین ماہ میں لاکھوں افغان مہاجرین کو زبردستی واپس طالبان کے زیرِ تسلط افغانستان بھیجا گیا — یہ ملک بدری کی تاریخ کا سب سے بڑا مرحلہ تھا۔اس مرحلے میں دیکھا گیا ہے کہ پاکستانی میڈیا میں افغان مہاجرین کی تصویرکشی ایک ’بحران‘ کے طور پر کی جاتی رہی۔ ایک ایسا ہنگامی اور ناقابلِ برداشت بوجھ جو ’ہم‘ پر پڑ رہا ہے۔ اس تصور کے تحت افغان مہاجرین کو ایک اور خطرہ دشمن کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، جو نہ صرف ریاست بلکہ عوام کے لیے بھی ناقابل قبول ہیں۔
چناچہ حکومتی اداروں کا آلہ کار بنا ہوا پاکستانی مرکزی میڈیا اس انسانی المیے پر تقریباً خاموش تماشائی بنا رہا اور صرف نمبر سناتا رہا کہ کتنے نکل گئے اور کتنے ابھی باقی ہیں۔
سوشل میڈیا پربھی افغان مہاجرین کو “دہشت گرد”، “غدار”، یا “معاشی بوجھ” قرار دیا جاتا رہا۔ اسی بیانیے کا اثر تھا جس نے زمین پر مہاجرین کے خلاف پالیسی فیصلوں کو جواز بھی فراہم کیا۔ پولیس کی جانب سے مہاجرین کو گرفتار کرنا، ان کے رجسٹریشن کارڈ پھاڑ دینا، اور حتیٰ کہ رشوت لے کر انھیں نکالنا یہ سب کچھ اس بیانیے کے زیر اثر انجام پا رہا ہے۔
یوکرین کی جنگ کے دوران مغربی میڈیا نے وہاں کے پناہ گزینوں کو ’مہذب‘، ’سفید فام‘ اور ’یورپی‘ کہہ کر ممتاز کیا، جبکہ مشرق وسطیٰ یا افغانستان سے آئے مہاجرین کو مشکوک، کم اہم یا غیر ضروری سمجھا گیا۔ یہی طبقاتی اور نسلی امتیاز پاکستانی میڈیا میں افغان مہاجرین کے حوالے سے بھی نظر آتا ہے۔
اس امر کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ سوشل میڈیا پر نفرت انگیز بیانیے صرف ڈیجیٹل دنیا تک ہی محدود نہیں رہتے۔ یہ نفرت انگیز بیانیے زمین پر افغان مہاجرین کی زندگیاں نگل رہے ہیں، انھیں بے گھر کر رہےہیں، ان کی شناخت چھین رہے ہیں، اور ان کے بنیادی انسانی حقوق پامال کر رہے ہیں۔
حالیہ دنوں میں یہ نفرت آن لائن دنیا سے نکل کر سڑکوں، گلیوں اور بازاروں تک جا پہنچی ہے۔اور اب جب افغان باشندوں کو ان کے ملک بھیجنے کا حکومتی فیصلہ ہوا تو لوگوں نے نہ صرف آن لائن پلیٹ فارمز پر بلکے زمینی سطح پر بھی اپنی سالوں پرانی نفرت کا برملا اظہار کیا۔اب یہ نفرت صرف الفاظ یا پوسٹس تک محدود نہیں، بلکہ عملی اقدامات میں بھی نظر آنے لگی ہے—پولیس چھاپے، جبری گرفتاری، بدزبانی، بے دخلی کی دھمکیاں، اور روزمرہ کی زندگی میں توہین آمیز سلوک۔
اس نفرت کی جھلک ہم نے یوں بھی دیکھی کہ جب وزارت داخلہ میں ان افغان پناہ گزینوں کی باعزت واپسی کو یقینی بنانے کے لئے ایک ہیلپ لائن قائم کی گئی تاکہ وہاں لوگ کال کر کہ اپنی شکایات درج کرا سکیں اور مدد کی درخواست کر سکیں۔ مگر جب اس ہیلپ لائن کا ریکارڈ معلوم کیا گیا تو پتہ یہ چلا کہ ٹوٹل 1200 کالز موصول ہوئیں اور ان میں سے 600 سے زائد پاکستانی شہریوں کی جانب سے کی گئی تھی کہ ہمارے آس پڑوس میں بھی افغانی روپوش ہیں آکر ان کو گرفتار کر کے اپنے ملک واپس بھیجا جائے۔
ہیلپ لائن آفیسر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ پاکستانی شہری خود شکایات کر رہے ہیں ان افغانیوں کو نکالوں ہمارے ملک سے۔ جو ہیلپ لائن ان شہریوں کی مدد کے لئے بنائی گئی تھی الٹا ان ہی کے خلاف استعمال ہوئی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ حیران کن تھا کہ لوگوں کی بڑی تعداد ہمدردی کے بجائے غصے اور نفرت کا اظہار کر رہی تھی۔ کچھ کالرز افغانوں کو ’دہشت گرد‘ کہہ کر ان کے محلوں کی نشاندہی کر رہے تھے تاکہ ان کے خلاف کارروائی کی جائے۔
یہ رجحان اس بات کا غماز ہے کہ آن لائن بیانیہ کس طرح زمینی حقائق پر اثرانداز ہو رہا ہے۔ نفرت انگیز تبصرے، ویڈیوز، اور پوسٹس صرف آن لائن ردِ عمل نہیں رہیں بلکہ وہ عام شہریوں کے رویوں اور ریاستی پالیسیوں کو بھی متاثر کر رہی ہیں۔
عمر اعجاز گیلانی، جو ایڈوکیٹ سپریم کورٹ ہیں اور افغان پناہ گزینوں کے حقوق پر گزشتہ چند سالوں سے کام کر رہے ہیں، نے ڈی آر ایف سے بات کرتے ہوئے کہا کہ حکومت پاکستان نے یہ جو افغانوں کے ساتھ کیا ہے اس کا بیانیہ بہت سالوں سے بنایا ہوا تھا۔ ’جب چوری یا اسمگللنگ کی بات ہو تو افغانوں پر الزام ڈال دیا جاتا ہے اور کاروائی کے دوران پوچھو تو کوئی ثبوت نہیں ہوتا پولیس کے پاس، بس ایک جواب ہوتا ہے کہ، ’آپ کو تو پتہ ہی ہے کہ یہ لوگ یہ کام کرتے ہیں۔‘انھوں نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ پاکستانی میڈیا میں ان لوگوں کے لئے کوئی طاقتور آواز باقی نہیں رہی۔
اسی طرح ایک برطانوی رپورٹ میں انکشاف ہوا کہ پاکستان میں افغان خواتین کے خلاف آن لائن ہراسانی کے واقعات میں 217 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ یہ ہراسانی صرف سوشل میڈیا پر نہیں، بلکہ ان کے گھروں، اسکولوں اور کام کی جگہوں پر بھی جاری ہے۔
کیا یہ صرف سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کا مسئلہ ہے؟ یا ریاستی اداروں کی خاموشی بھی اس بیانیے کو ہوا دے رہی ہے؟ کیا روایتی میڈیا، جو اکثر افغانوں کو ’بوجھ‘ یا ’سکیورٹی رسک‘ کے طور پر پیش کرتا ہے، عوامی رائے کو تعصب کی طرف دھکیل رہا ہے؟
جب حکومت خود ’غیر قانونی مہاجرین ‘ یا دہشت گرد جیسے الفاظ استعمال کرتی ہے، تو عوام بھی ان سے ہمدردی نہیں بلکہ نفرت کا اظہار کرتی ہے۔ سوشل میڈیا صرف اس بیانیے کا عکس ہے جو ریاست خود فراہم کرتی ہے۔
مسئلے کا حل صرف سوشل میڈیا پر مواد کی نگرانی سے نہیں نکلے گا۔ اس کے لیے ریاستی سطح پر سنجیدہ مکالمے، میڈیا کی تربیت، پولیس اور عدالتی نظام میں اصلاحات، اور سب سے بڑھ کر—انسانی ہمدردی کی بحالی ضروری ہے۔
افغان پناہ گزینوں کے خلاف نفرت کا یہ بیانیہ ہمیں نہ صرف ایک انسانی بحران کی طرف دھکیل رہا ہے بلکہ ہماری اپنی اخلاقی بنیادوں کو بھی چیلنج کر رہا ہے۔ ایک قوم کے طور پر ہمیں یہ فیصلہ کرنا ہو گا کہ ہم نفرت کی زبان بولنے والوں کی بھیڑ میں شامل ہوں گے یا اس زنجیر کو توڑنے کی پہلی کڑی بنیں گے۔

