Privacy Threats and Intimidation Faced by Investigative Journalists (Urdu) By Saeeda Salarzai
May 14, 2025Right to a digital identity: Why are so many Pakistani women journalists forced to work anonymously? By Kinza Shakeel
May 14, 2025گزشتہ دہائی میں ڈیجیٹل ٹیکنالوجی نے معلومات کے پھیلاؤ کو انقلاب کی صورت میں بدل دیا ہے۔ سوشل میڈیا، آن لائن نیوز پورٹلز، اور بلاگرز نے صحافت کو نئی جہتیں دی ہیں، اور اب کوئی بھی فرد، کہیں سے بھی، اپنی آواز بلند کر سکتا ہے۔ یہ تبدیلی ماحولیاتی صحافت کے لیے خاص طور پر اہم رہی ہے کیونکہ روایتی میڈیا اکثر ماحولیاتی موضوعات کو نظر انداز کرتا رہا ہے۔
ڈیجیٹل دور نے دنیا کو ایک نئے انقلاب سے روشناس کرایا ہے۔ معلومات کی رسائی، اظہار رائے کی آزادی اور سماجی تحریکوں کی رفتار میں بے مثال تیزی آئی ہے۔ خاص طور پر ماحولیاتی صحافت جیسے حساس شعبے میں ڈیجیٹل پلیٹ فارمز نے نئی راہیں کھولی ہیں، جہاں مقامی مسائل کو عالمی سطح پر اجاگر کیا جا سکتا ہے۔ تاہم، سنسرشپ اور معلوماتی رکاوٹیں ایک ایسا سنگین مسئلہ بن کر ابھری ہیں جو سچائی کی رسائی کو محدود کر رہی ہیں۔
تاہم، جیسے جیسے ڈیجیٹل دنیا نے معلومات کی آزادی کے دروازے کھولے ہیں، ویسے ویسے سنسرشپ، ڈیجیٹل کنٹرول اور جھوٹی معلومات کے ہتھیاروں نے ان دروازوں کو بند کرنے کی کوشش کی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ڈیجیٹل پلیٹ فارمز حقیقت میں معلومات کی سچائی تک رسائی فراہم کر رہے ہیں، یا یہ ایک نئے دور کی سنسرشپ کا میدان بن چکے ہیں؟
ڈیجیٹل پلیٹ فارمز: مواقع یا خطرہ؟
ڈیجیٹل پلیٹ فارمز نے ماحولیاتی صحافیوں، کارکنوں، اور اداروں کو عالمی سطح پر اپنی آواز بلند کرنے کا نادر موقع فراہم کیا ہے۔ EarthLens International جیسے پلیٹ فارمز، جو مقامی ماحولیاتی مسائل کو عالمی سطح پر اجاگر کرتے ہیں، اس انقلاب کا عملی مظہر ہیں۔
لیکن دوسری طرف، ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کے الگورتھمز معلومات کی نمائش کو کنٹرول کرتے ہیں۔ ماحولیاتی تبدیلی کے خلاف بولنے والے کارکنوں کی ویڈیوز بعض اوقات “غیر مناسب” یا “حساس” مواد کے طور پر محدود کر دی جاتی ہیں۔ فیس بک اور ٹوئٹر پر ایسی بے شمار رپورٹس ہیں کہ حکومتوں یا بڑی کمپنیوں کے خلاف مواد کو دانستہ طور پر کم رسائی دی جاتی ہے۔
مثال کے طور پر، 2021 میں ایک تحقیق سے پتا چلا کہ فیس بک نے کلائمٹ چینج سے متعلق کئی معتبر رپورٹس کی رسائی محدود کی کیونکہ انہیں “سیاسی نوعیت” کا حامل سمجھا گیا۔ ایسے میں جب ریاستی ادارے اور کارپوریٹ مفادات مل جاتے ہیں، تو ماحولیاتی سچائی دب جاتی ہے۔
کیس اسٹڈی
2020 میں ایک معروف ماحولیاتی کارکن کیویٹا کرشنن نے بھارتی ریاست چھتیس گڑھ میں ایک بڑے جنگلاتی کٹاؤ کے خلاف سوشل میڈیا پر مہم چلائی۔ انسٹاگرام پر ان کی پوسٹس کو “گمراہ کن” قرار دے کر شیڈو بین کر دیا گیا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ یہ پروجیکٹ ایک بڑی کارپوریٹ کمپنی کی سرپرستی میں تھا۔ یہ واقعہ واضح کرتا ہے کہ ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کس طرح غیر اعلانیہ سنسرشپ کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔
ماحولیاتی صحافت کی اہمیت اور مشکلات
ماحولیاتی صحافت محض آلودگی یا قدرتی آفات کی رپورٹنگ تک محدود نہیں؛ یہ انسانی حقوق، معیشت، اور سماجی انصاف سے بھی جڑی ہے۔
موسمیاتی تبدیلی، پانی کی قلت، ماحولیاتی مہاجرت، غذائی عدم تحفظ اور صحت کے بحران جیسے موضوعات کا براہ راست تعلق ماحولیاتی رپورٹنگ سے ہے۔ لیکن ترقی پذیر ممالک میں ماحولیاتی رپورٹرز کو کئی طرح کی مشکلات کا سامنا ہے۔
وسائل کی کمی: ماحولیاتی تحقیق اور فیلڈ رپورٹنگ مہنگی ہے، لیکن اکثر ادارے اس پر سرمایہ نہیں لگاتے۔
ڈیٹا تک محدود رسائی: حکومتی ادارے شفاف ڈیٹا فراہم نہیں کرتے، جس سے حقائق کی تصدیق مشکل ہو جاتی ہے۔
خطرات اور سنسرشپ: ماحولیاتی رپورٹرز پر بالواسطہ یا بلاواسطہ دباؤ ڈالا جاتا ہے۔
پاکستان میں، کوئلے کے منصوبوں یا ڈیموں پر رپورٹنگ اکثر “قومی مفادات” کے خلاف تصور کی جاتی ہے۔ ایک پاکستانی رپورٹر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا
جب ہم نے ایک فیکٹری کی آلودگی پر رپورٹ دی، تو ہمیں ادارے کی جانب سے نوٹس ملا اور ہماری فیس بک پوسٹس کی رِیچ کم ہو گئی۔”
عالمی مثال
فلپائن میں، مشہور ماحولیاتی صحافی گیریٹ سانچیز کو اس وقت دھمکیاں موصول ہوئیں جب انہوں نے ایک ملٹی نیشنل کمپنی کے جنگلاتی کٹاؤ کے منصوبے کو بے نقاب کیا۔
یہ مسئلہ عالمی سطح پر بھی موجود ہے۔ آسٹریلیا میں مرڈوک میڈیا گروپ پر الزام ہے کہ وہ جان بوجھ کر کلائمٹ چینج رپورٹنگ کو کم اہمیت دیتا ہے۔
EarthLens International ارتھ لینز انٹرنیشنل کا ماحولیاتی صحافت میں کردار
ارتھ لینز انٹرنیشنل کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ وہ ایسے موضوعات پر توجہ مرکوز کرے جو روایتی میڈیا میں اکثر نظر انداز ہو جاتے ہیں۔ یہ پلیٹ فارم نوجوان صحافیوں، ماحولیاتی ماہرین، اور کارکنان کو ایک ایسا فورم فراہم کرتا ہے جہاں وہ آزادانہ طور پر تحقیقاتی رپورٹس، فیچر آرٹیکلز، انٹرویوز اور ویڈیو ڈاکیومینٹریز کے ذریعے اپنی آواز بلند کر سکیں۔ اس کے ذریعے ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات، مقامی کمیونٹیز کی جدوجہد، اور پائیدار ترقیاتی منصوبوں پر روشنی ڈالی جا رہی ہے۔
ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کی طاقت کا بھرپور استعمال کرتے ہوئے، ارتھ لینز انٹرنیشنل نے سوشل میڈیا، ویب سائٹ، اور یوٹیوب چینل جیسے ذرائع کو بروئے کار لا کر ماحولیاتی صحافت میں نئی روح پھونکی ہے۔ یہ ادارہ نہ صرف خبریں فراہم کرتا ہے بلکہ سیکھنے اور سمجھنے کا ایک عمل بھی شروع کرتا ہے جس کے ذریعے عوام میں ماحولیاتی شعور بیدار کیا جا رہا ہے۔ خاص طور پر نوجوانوں کو تربیت دے کر انہیں اس قابل بنایا جا رہا ہے کہ وہ اپنی کمیونٹیز میں تبدیلی کے سفیر بن سکیں۔
ارتھ لینز انٹرنیشنل کے کام کا ایک خاص پہلو یہ بھی ہے کہ یہ صرف بڑے شہروں پر نہیں بلکہ دیہی اور پس ماندہ علاقوں کے مسائل پر بھی فوکس کرتا ہے۔ پانی کے بحران، جنگلات کی کٹائی، آلودگی، اور زراعت پر موسمیاتی تبدیلی کے اثرات جیسے موضوعات پر رپورٹنگ کے ذریعے یہ پلیٹ فارم ان آوازوں کو جگہ دیتا ہے جو عموماً مرکزی میڈیا میں دب جاتی ہیں۔ اس عمل نے ماحولیاتی انصاف کے تصور کو تقویت دی ہے اور پالیسی سازی پر بھی اثرانداز ہونے کی بنیاد رکھی ہے۔
سنسرشپ اور معلوماتی رکاوٹوں کے اس دور میں ارتھ لینز انٹرنیشنل نے خود کو آزادی اظہار کا علمبردار ثابت کیا ہے۔ تحقیق اور مستند معلومات پر مبنی رپورٹنگ کی بدولت اس پلیٹ فارم نے ماحولیاتی مسائل پر مبنی بیانیے میں شفافیت اور اعتبار کو فروغ دیا ہے۔ عالمی ماحولیاتی ایونٹس، کانفرنسز اور مقامی سرگرمیوں کی کوریج کے ذریعے ارتھ لینز انٹرنیشنل نے پاکستان کی ماحولیاتی صحافت میں ایک نیا معیار قائم کر دیا ہے۔
سنسرشپ کی اقسام اور اثرات
سنسرشپ کئی شکلوں میں سامنے آتی ہے:
ریاستی سنسرشپ: ماحولیاتی رپورٹنگ کو “قومی سیکیورٹی” کا مسئلہ قرار دے کر روکا جاتا ہے۔
کارپوریٹ سنسرشپ: بڑی کمپنیاں اشتہاری دباؤ کے ذریعے میڈیا پر اثر انداز ہوتی ہیں۔
خود ساختہ سنسرشپ: رپورٹر خود حفاظتی نقطہ نظر سے حساس موضوعات پر خاموشی اختیار کر لیتے ہیں۔
ڈیجیٹل سنسرشپ:
مواد کو”مسلیڈنگ” قرار دے کر دبانا یا ریچ کم کرنا
یہ سب سوال اٹھاتے ہیں کہ جب سچائی ہی عوام تک نہیں پہنچے گی تو ماحولیاتی خطرات سے نمٹنے کی صلاحیت کیسے بڑھے گی؟
ماحولیاتی ماہرین کی رائے
اس موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے، معروف ماہر ماحولیات اور ماحولیاتی صحافیوں کی تربیت میں سرگرم عافیہ سلام نے کہا
“ڈیجیٹل پلیٹ فارمز نے مقامی مسائل کو اجاگر کرنے میں مدد دی ہے، لیکن ان کے ساتھ خطرات بھی موجود ہیں۔ ریاستی یا کارپوریٹ مفادات کے خلاف رپورٹنگ کرنے پر صحافیوں کو دباؤ، دھمکیوں یا سوشل میڈیا ٹرولنگ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔”
انہوں نے مزید کہا کہ
“صحافیوں کو خود بھی احتیاط کرنی پڑتی ہے تاکہ وہ خبر دینے والے مقامی افراد کو کسی ممکنہ خطرے میں نہ ڈالیں۔ بعض اوقات یہ خطرہ صحافی کو حساس زبان یا الفاظ کے چناؤ پر مجبور کر دیتا ہے۔”
یہ بات واضح کرتی ہے کہ ڈیجیٹل پلیٹ فارمز ایک طرف مواقع فراہم کرتے ہیں، تو دوسری طرف خطرات بھی بڑھا دیتے ہیں۔
ایک سینئر اور تجربہ کار صحافی، نعیم احمد، جو ماحولیاتی صحافت میں کئی سالوں کا عملی تجربہ رکھتے ہیں اور اپنا ایک ڈیجیٹل پلیٹ فارم بھی چلا رہے ہیں، کہتے ہیں:
“میرا تجربہ یہ ہے کہ ڈیجیٹل پلیٹ فارمز نے ماحولیاتی صحافت کو ایک نئی جہت دی ہے۔ لوگ اب ان موضوعات میں دل چسپی لے رہے ہیں اور فوری رسپانس بھی موصول ہوتا ہے۔ البتہ میں نے یہ بھی نوٹ کیا ہے کہ محض مسائل بیان کرنے پر اتنا ردعمل نہیں آتا جتنا کہ اگر ساتھ ساتھ حل بھی تجویز کیے جائیں۔ میں نے شعوری کوشش کی ہے کہ اسٹارٹ اپس، مقامی کوششوں اور کیس اسٹڈیز کو نمایاں کروں تاکہ مثبت پیش رفت بھی اجاگر ہو۔”
سنسرشپ کے حوالے سے نعیم احمد کا کہنا ہے کہ انہیں ڈیجیٹل پلیٹ فارمز پر براہ راست کوئی سنسرشپ کا سامنا نہیں کرنا پڑا، تاہم معلومات تک رسائی ایک بڑا چیلنج ہے۔ “ڈیٹا کی کمی اور ماہرین کی دستیاب معلومات کے غیر معیاری ہونے کی وجہ سے رپورٹنگ میں رکاوٹ آتی ہے، جس پر اضافی محنت کرنی پڑتی ہے۔”
اسی سلسلے میں ماحولیاتی صحافت کے موضوع پر تحقیق کرنے والی ڈاکٹر سعدیہ خالد کہتی ہیں
“مین اسٹریم میڈیا میں ماحولیاتی رپورٹنگ میں فیکچوئل غلطیاں عام ہیں۔ رپورٹس کا حوالہ دیے بغیر یا ناکافی تحقیق کے ساتھ خبریں شائع کر دی جاتی ہیں۔ گلگت بلتستان جیسے حساس علاقوں کے حوالے سے جغرافیائی غلط بیانی بھی دیکھی گئی ہے۔”
ڈاکٹر سعدیہ سنسرشپ کے ایک اور اہم پہلو پر روشنی ڈالتی ہیں
“بہت سے ایسے موضوعات ہیں جن پر اداروں یا سیاسی شخصیات پر تنقید نہیں کی جا سکتی۔ مثال کے طور پر، سیاسی پروٹوکولز کی وجہ سے ٹریفک جام، غیر ضروری ایندھن کا استعمال اور کاربن ایمیشنز میں اضافہ جیسے مسائل کو اجاگر نہیں کیا جاتا۔”
وہ مزید کہتی ہیں کہ
“حکومتی تقریبات میں خوراک کے ضیاع، سرکاری دفاتر میں غیر ضروری سفر، اور سیاسی جلسوں کے دوران ماحولیاتی نقصان جیسے موضوعات پر بھی کوئی احتساب یا رپورٹنگ نہیں ہوتی۔ یہ سب انوائرمنٹل کرپشن کی مثالیں ہیں، لیکن بدقسمتی سے ہم ان پر بات کرنے سے بھی گریز کرتے ہیں۔”
سچائی کے لیے مزاحمت: کامیاب کوششیں اور نئے راستے
رکاوٹوں کے باوجود، مزاحمت جاری ہے
ارتھ لینز انٹرنیشنل ارتھ لینز انٹرنیشنل جیسے پلیٹ فارمز مقامی کہانیاں اجاگر کر رہے ہیں
Climate Tracker اور Internews نوجوان صحافیوں کی تربیت اور معاونت کر رہے ہیں۔
Collaborative Journalism Projects جیسے “Covering Climate Now” عالمی سطح پر اداروں کو ماحولیاتی رپورٹنگ کے لیے اکٹھا کر رہے ہیں۔
ڈیجیٹل سکیورٹی ٹولز نے صحافیوں کو محفوظ رپورٹنگ کے ذرائع فراہم کیے ہیں۔
ڈیجیٹل پلیٹ فارمز اورآج کا نوجوان
ڈیجیٹل پلیٹ فارمز نے نوجوانوں اور صحافیوں کو بے پناہ مواقع فراہم کیے ہیں، مگر ساتھ ہی نئی قسم کی رکاوٹیں بھی کھڑی کی ہیں۔ ماحولیاتی صحافت جیسی حساس فیلڈ میں ڈیجیٹل مہارت، آزاد رسائی، اور تخلیقی اظہار آج کی سب سے بڑی ضروریات بن چکی ہیں۔ پاکستان جیسے ممالک میں جہاں نوجوان آبادی دنیا کی سب سے بڑی طاقت ہے، وہاں ڈیجیٹل تعلیم، جدید تربیت، اور سنسرشپ کے خلاف شعور اجاگر کرنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ اگر ہم آج صحیح فیصلے کریں، نوجوانوں کو بااختیار بنائیں اور سچائی کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کریں، تو ہم ایک ایسا مستقبل تخلیق کر سکتے ہیں جو نہ صرف ڈیجیٹل طور پر ترقی یافتہ ہوگا بلکہ زیادہ شفاف، پائیدار اور انصاف پر مبنی بھی ہوگا۔
آگے کا راستہ: سفارشات
حکومتوں اور کمپنیوں کو ماحولیاتی ڈیٹا میں شفافیت لانا ہوگی۔
ماحولیاتی صحافیوں کو قانونی تحفظ اور مالی معاونت فراہم کرنی ہوگی۔
ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کو اپنے الگورتھمز اور سنسرشپ پالیسیز میں شفافیت لانی چاہیے۔
عوام کو معلومات کے تجزیے اور جھوٹی خبروں کی شناخت کی تربیت دینا ضروری ہے۔
نتیجہ
ڈیجیٹل پلیٹ فارمز نے صحافت کو نئی آزادی دی ہے، لیکن اسی کے ساتھ سچائی پر نئے قسم کے دباؤ اور رکاوٹیں بھی کھڑی کی ہیں۔ ماحولیاتی صحافت جیسی حساس فیلڈ میں ڈیجیٹل مہارت، آزاد رسائی، اور تخلیقی اظہار آج کی سب سے بڑی ضروریات بن چکی ہیں۔ پاکستان جیسے ممالک میں جہاں نوجوان آبادی دنیا کی سب سے بڑی طاقت ہے، وہاں ڈیجیٹل تعلیم، جدید تربیت، اور سنسرشپ کے خلاف شعور اجاگر کرنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ اگر ہم آج صحیح فیصلے کریں، نوجوانوں کو بااختیار بنائیں اور سچائی کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کریں، تو ہم ایک ایسا مستقبل تخلیق کر سکتے ہیں جو نہ صرف ڈیجیٹل طور پر ترقی یافتہ ہوگا بلکہ زیادہ شفاف، پائیدار اور انصاف پر مبنی بھی ہوگا۔
ماحولیاتی سچائی، جو ہماری بقا کے لیے ناگزیر ہے، سنسرشپ اور کارپوریٹ مفادات کے نیچے دب رہی ہے۔
مگر امید باقی ہے۔ صحافی، کارکن اور باشعور شہری اگر یکجا ہو کر کام کریں تو سچائی کی راہیں ہمیشہ کھلی رہتی ہیں۔
ماحولیاتی صحافت محض ایک پیشہ نہیں، یہ انسانیت کی بقا کی جدوجہد ہے — اور اس کی حفاظت ہم سب کی اجتماعی ذمہ داری ہے۔

