Women morning show hosts from Khyber Pakhtunkhwa face online hate speech on a daily basis by Nazia Salarzai
June 19, 2025‘Don’t Take It as a Joke—Online Hate can Manifest in Real Life too’ by Naheed Jahangir
June 19, 2025
خیبرپختونخوا کی خواتین سیاسی رہنماؤں کو آن لاین ہیٹ سپیچ سے بہت مشکلات کا سامنا ہے۔ سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے توہین آمیز زبان کا استعمال اور بدسلوکی جیسے مسائل میں دن بہ دن اضافہ ہورہا ہے۔ خیبر پختونخوا کی خواتین روایتی رکاوٹوں کے باعث بمشکل ہی سیاسی میدان میں قدم رکھتی ہیں ایسے میں بہت سی شدید آن لائن بدسلوکی کا شکار رہیں۔ اب ٹیکنالوجی کا دور ہے سوشل میڈیا کا استعمال بڑھ چکا ہے، آئین کے مطابق اپنی رائے کا اظہار کرنا اور تنقید کرنا ہر ایک کا حق ہے لیکن اس کی کچھ حدود ہیں جو بہت سے ان سے تجاوز کر کے دوسروں کی زندگیوں کے لیے خطرہ بن رہے ہیں۔
نفرت انگیز ، دھمکی آمیز اور غیر اخلاقی بیانات سے خواتین سیاستدانوں کی سیاسی اور ذاتی زندگی بری طرح متاثر ہورہی ہے۔ ہیٹ سپیچ کا مقصد انہیں مجبور کرنا بلیک میل کرنا اور ان کی سیاسی اور ذاتی زندگی کو نقصان پہنچانا ہوتا ہے۔ اے ائی کے زریعے جعلی ویڈیوز اور آڈیوز وائرل کر کے انکے خلاف غلط معلومات پھیلایا جاتا ہے، جس پر بہت سے لوگ یقین بھی کرلیتے ہیں۔
خیبر پختونخوا سابق ایم پی اے بسیرت خان شینواری کا کہنا ہیں کہ اب ڈیجیٹل اور مصنوعی ذہانت (اے ائی) کا دور ہے۔ اگر حقیقت دیکھ لیں تو ہماری خواتین کی سیاست میں نمائندگی بہت کم ہے اور جو تھوڑی بہت ہے تو ان کو آن لائن بدسلوکی جیسے مسائل کا سامنا ہے۔ ایک طرف ٹیکنالوجی ہمیں اتنا فائدہ دے رہی ہے تو دوسری طرف اس کے منفی اثرات بھی بہت زیادہ ہیں۔ انہوں نے بتایا پورے پاکستان بلخصوص خیبر پختونخوا کی خواتین اگر سیاست میں آتی ہے تو وہ سیاسی زندگی کے ساتھ ساتھ اپنی خاندان کو بھی دیکھ رہی ہوتی ہے اور خدانخواستہ اگر ائے ائی کے ذریعے ان کی تصاویر اور ویڈیوز بنتی ہے یا ان کے الفاظ کا نامناسب استعمال کیا جاتا ہے تو یہ ان کے پورے کیریئر کو تباہ کر لیتا ہے۔ ان کا کہنا ہیں کہ ہیٹ سپچ زیادہ ہورہا ہے اور سوشل میڈیا پر ایک ٹرینڈ چلتا ہے جس کا ہم سب نے سامنا کیا ہے، بعض دفعہ اپنے حلقے کے لوگ ایسا کرتے ہے۔ وہ بتاتی ہیں کہ لوگ سوشل میڈیا پہ بیٹھ کے تو ایک کمنٹ پاس کر لیتے ہے لیکن ان کو یہ سمجھ نہیں پڑتی کہ یہ کمنٹ اگے کتنے لوگ پڑھ رہیں ہیں۔ بغیر تحقیق اور جانچ پڑتال کے کچھ بھی کسی کے کردار کے ساتھ منسوب کردیتے ہے تو یہ ہی ہیٹ سپیچ ہے اس کو جتنا اگنور کرے تو بہتر ہے۔
ارٹیفیشل انٹیلیجنس کے حوالے سابق ایم پی اے بسیرت شینواری کا کہنا ہیں کہ حکومت کو اس طرف توجہ دینی چاہیۓ، مانا کہ ڈیجیٹل دور ہے ہر کسی کو آزادی اظہار راۓ کا حق حاصل ہے لیکن کچھ حدود بھی ہونی چاہیے۔ خدانخواستہ کسی کے اوپر بات کرنا یا کسی کی ویڈیوز بنانا تو ایک لمہے کا کام ہوتا ہے لیکن اگلے بندے کا پورا کیریئر اس سے تباہ ہو سکتا ہے۔ انہوں نے کہا پتہ نہیں ہمارے لوگوں میں شعور کب آئی گی، ملک کی بڑی بڑی خواتین سیاسی رہنماؤں کو برے القابات کہنا اور ویڈیوز بنانا میری سمجھ سے باہر ہے۔ اگر کسی کی سیاسی کام کے حوالے اس میں میں بہتری لانے کیلۓ تنقید کی جاۓ یہ تو قابل قبول ہے کیونکہ تنقید برائے اصلاح ہونی چاہیے۔ سابق ایم پی اے کا کہنا ہیں کہ ہمارا معاشرہ اخلاقیات کے دائرے سے روز بروز گررہا ہے کیا سیاست صرف اختلافات کی حد تک رہ گئ؟ ہم نہیں سوچتے کہ بحیثیت مسلمان اور پاکستانی شہری کیا یہ چیزیں ہمیں زیب دیتی ہے کہ ہم خواتین کی اس طرح تذلیل کریں۔ وہ بتاتی ہیں میں نے خود آن لائن ہیٹ سپیچ کا سامنا کیا ہے، ان چیزوں کی روک تھام ہونی چاہیے بلکہ اس پہ سزائے ہونی چاہیے تاکہ لوگ اس چیز سے کسی حد تک مثبت پہلو کی طرف آئے۔
خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنے والی پاکستان پیپلز پارٹی سے وابستہ سینیر کارکن (پرائیویسی کی خاطر اپنا نام نہ بتانے کی شرط پر) بتاتی ہیں کہ سوشل میڈیا پر نفرت انگیز زبان کے استعمال نے خاص طور پر سیاسی خواتین کو بہت زیادہ متاثر کیا ہے۔ خیبر پختونخوا میں خواتین پہلے ہی پدرانہ نظام کا شکار ہیں، اور ایسے میں آن لائن نفرت انگیز گفتگو نے سیاست میں ان کی جگہ مزید کم کر دی ہے۔ آنلائن سپیسز میں انہیں اپنی پرائیویسی اور تحفظ کی خاطر دوسرے نام سے آئی ڈیز بنانی پڑتی ہے لیکن پھر بھی دھمکیوں، بدسلوکی اور نفرت انگیز تقریروں سے ان کی عزت نفس اور ذہنی سکون عام اور مخصوص اصطلاحات میں ٹوٹ جاتا ہے۔ ان کا کہنا ہیں کہ میں سیاسی سرگرمیوں میں بہت پُرجوش تھی، لیکن سیاست میں حصہ لینے پر مجھے نفرت انگیز زبان کا نشانہ بنایا گیا۔ کچھ آن لائن نفرت انگیز زبان کی وجہ سے، میرے خاندان نے مجھ پر پیچھے ہٹنے کے لیے دباؤ ڈالا، اگر میں اکیلی ہوتی تو اس کا سامنا کرتی لیکن اپنی والدہ کے ذہنی سکون اور صحت کو بچانے کے لیے مجھے سوشل میڈیا پر ائسولیشن موڈ کا طریقہ اختیار کرنا پڑا۔
پی پی پی کارکن کا مزید کہنا ہیں کہ میں نے زیادہ تر ایکٹیوزم پلیٹ فارمز سے اپنا دفاع کرنے کی درخواست کی لیکن وہ میرے اور ساتھی خواتین کارکنان کی مدد کرنے میں بے ناکام رہیں، جس کی وجہ میں بہت مایوس ہوئی۔ سیاسی خواتین کارکنوں کے لیے ایک مضبوط معاون طریقہ کار ہونا چاہیے جبکہ بروقت کاروائی نہ کرنے پر وہ روز بروز خاموش ہوتی جائیں گی۔ ہمارے ملک میں آنلائن تحفظ کے حوالے سے صرف نگہت داد صاحبہ ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن کے زریعے ایک بڑے پیمانے پر کام کررہی ہے، باقی پلیٹ فارمز یا تو غیر فعال یا بے بس ہے۔ نگہت داد صاحبہ سے میری درخواست ہے کہ اس مشن کو پورے پاکستان میں صوبائی اور ضلعی سطح تک پھیلایاجاۓ کیونکہ نہ صرف سیاسی خواتین بلکہ کاروباری اور گھریلو خواتین بھی ڈیجیٹل دنیا میں خریداری، بینکنگ، بکنگ اور روزمرہ زندگی کی مختلف پہلوؤں کے حوالے سے آنلائن سپیسز سے منسلک ہیں، انہیں آنلائن پرائیویسی اور حفاظتی اصولوں کا علم ہونا چاہیے۔
ثانیہ جاوید خیبرپختونخوا یوتھ اسمبلی کی نائب صدر ہے (پہلے یوتھ ڈپٹی اسپیکر کے طور پر خدمات انجام دے چکی ہے)۔ اس وقت ثانیہ جاوید سیاسی اور سماجی سرگرمیوں میں مصروف ہے۔ ثانیہ جاوید کا کہنا ہیں
میرا مقصد اپنی کمیونٹی پر مثبت اثر ڈالنا اور سماجی بہتری میں اپنا کردار ادا کرنا ہے۔ لیکن میں ہر وقت آنلائن ہیٹ سپیچ کے حوالے سے پریشان رہتی ہوں۔ میں سوشل میڈیا پر پیکچرز اور کام کے حوالے سے پوسٹ کرنے سے خوف محسوس کرتی ہوں کہ کہیں کوئی اس کا غلط استعمال نہ کریں کیونکہ میرے ساتھ ماضی میں کئی دفعہ ایسا ہوا ہے جس سے مجھے ہیٹ سپیچ کا نشانہ بنایا گیا ہے۔
حافظہ زمر ملک پشاور میں بطور کلینیکل سائیکالوجسٹ اور سی بی ٹی تھراپسٹ کام کرتی ہے وہ بتاتی ہیں
کہ خواتین سیاسی رہنماؤں کے خلاف عوام اور مخالف پارٹی سپورٹرز جو ہیٹ سپیچ کرتی ہے اس کا ان پر اور ان کے خاندان پر بہت بڑا منفی اثر پڑتا ہے۔ ہیٹ سپیچ نہ صرف سیاستدانوں بلکہ ایک عام انسان کے لیے بھی بہت بڑی بات ہوتی ہیں۔ اگر ایک سیاسی کارکن کی نیت صاف ہو اگر وہ دل سے ایک تقریر کریں اور مخالف پارٹی اس کے الفاظ کو ردوبدل کریں تو اس کی وجہ سے ایک منفی تاثر پیدا ہوتا ہے۔ یہ انسان کو ذہنی طور پر بھی بہت ڈسٹرب کرتا ہے اور احساسِ کمتری کا شکار ہوجاتا ہے، پھر اگر نارمل دنوں میں کوئی بات کرتا ہے تو سوچتا ہے کہ میں نے صحیح کہا یا نہیں اس کو بہت ڈر ہوتا ہے کہ کوئی مجھے ریکارڈ کر رہا ہے یا میرے بارے میں غلط لکھ رہا ہے۔ نفسیاتی اثرات کی وجہ انسان سے ہر ایک بات پر صفائی دینا شروع کردیتا ہے، اور ہر وقت لوگوں کو خوش کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ ڈاکٹر زمر ملک کا کہنا ہیں کہ سیاسی خواتین کو اپنی ذہنی صحت کی خاطر ہیٹ سپیچ کو اگنور کرنا بہت ضروری ہے انہیں یہ ماننا ہوگا کہ میں چاہے کچھ بھی کرلوں مخالفین نے پھر بھی میرے خلاف بولنا ہے، تو ایسا کرنے سے جہاں ایک انسان 100 فیصد متاثر ہو رہا ہے وہاں یہ تاثر 50 فیصد تک کم ہوجائیگا بعض اوقات 30 سے 20 فیصد کی طرف بھی آجاتا ہے۔ کوشش کریں اپنے آپ کو روزانہ مفید سرگرمیوں میں مصروف رکھیں تاکہ اپنی مصروفیت کی وجہ سے ہیٹ سپیچ کا زیادہ اثر آپ کے اوپر نہ ائے۔
ڈاکٹر زمر ملک اے آئی کے زریعے جعلی مواد کے حوالے سے بتاتی ہیں کہ ہمارا پورا معاشرہ موبائل فون استعمال کرنے کا عادی ہوچکا ہے ہماری ہر ایک چیز سوشل میڈیا پر موجود ہوتی ہے چاہے وہ سنیپ چیٹ، فیس بک، یا انسٹاگرام ہو ہم کہیں پہ بھی جاتے ہیں ہر ایک حرکت کو پوسٹ کر رہے ہوتے ہیں میں نے یہ کیا میں نے یہ کھایا میں اس کے ساتھ بیٹھا ہوں۔مصنوعی ذہانت (اے ائی) کے ذریعے بہت سے خواتین ڈپریشن کا شکار ہوجاتی ہیں کیونکہ ان کی تصاویر اور ویڈیوز وائرل کی جاتی ہے ان کی تقاریر کو ردوبدل کیا جاتا ہے۔ اوہ بتاتی ہیں کہ گر یہ خواتین ڈیٹا دینا ہی چھوڑ دیں تو اس میں کمی ہوسکتی ہے۔ سیاست پہلے بھی لوگوں نے کی ہے ان کی سوشل میڈیا پر اس طرح چیزیں نہیں آتی تھی، اس وقت بے شک سوشل میڈیا کا دور نہیں تھا- لیکن اپنی حفاظت خود بھی کی جاسکتی ہے اگر ایک محدود سطح پر چیزیں پوسٹ کریں تو پھر اگے مسئلہ نہیں بنے گا۔ خواتین کو چاہیے کہ وہ پہلے سے احتیاطی تدابیر اختیار کریں تاکہ اگے سے سامنا ہی نہ کرنا پڑے۔ کوشش کریں ان سب چیزوں سے بچنے کیلۓ زیادہ نزدیک سے لی گئی تصاویر اور ویڈیوز پوسٹ نہ کریں کیونکہ ان میں چہرہ واضح پہچان لیا جاتا ہےاس طریقے سے پھر اگے چیزیں بے جاء استعمال ہو سکتی ہے۔ اگر کوئی ڈپریشن کا شکار ہے تو وہ ایک ایسے سہولت کار(سائیکایٹرسٹ) کے پاس جائے جو ان کے رہنمائی کرسکیں۔
ایڈووکیٹ پشاور ہائی کورٹ لائبہ گل شیر کا کہنا ہیں کہ خواتین سیاسی رہنماؤں کے خلاف آن لائن نفرت انگیز تبصرے یا پیغامات سوشل میڈیا یا انٹرنیٹ پر پھیلائے جاتے ہیں۔ یہ تقاریر اکثر صنفی امتیاز، کردار کشی، دھمکیوں اور بدزبانی پر مشتمل ہوتی ہیں۔
انہوں نے خواتین سیاسی رہنماؤں کے خلاف ہیث سپیچ کے چند وجوہات بتائیں۔
وجوہات:
“صنفی امتیاز :خواتین کی قیادت کو قبول نہ کرنا۔
سیاسی دشمنی: سیاسی مخالفین کی کردار کشی کرنا۔
سوشل میڈیا کی آزادی: شناخت چھپنے کی وجہ سے نفرت پھیلانا آسان ہوجاتا ہے۔
عدم برداشت: خواتین کی رائے یا قیادت سے عدم برداشت۔
جھوٹی معلومات: افواہوں اور غلط خبروں کی بنیاد پر حملے”۔
ایڈووکیٹ لائبہ گل شیر اس حوالے سے قانونی کارروائی کے متعلق بتاتی ہیں۔
متعلقہ قوانین پاکستان
پاکستان پینل کوڈ PPC قانون کے تحت:
دفعہ A-153 کے مطابق گروہوں میں نفرت پھیلانے والے کو 5 سال تک قید کی سزا دی جاتی ہے۔
دفعہ 505(2) کے مطابق نفرت انگیز بیانات پر7 سال تک قید کی سزا دی جاتی ہے۔
الیکٹرانک جرائم کی روک تھام کا قانون کے تحت
: کے تحت (PECA 2016)
سیکشن 11 کے مطابق آن لائن نفرت انگیز تقریر پر 7
سال تک قید کی سزا دی جاتی ہے۔
سیکشن 20 کے مطابق آن لائن کردار کشی کرنے پر 3 سال قید یا 10 لاکھ روپے جرمانہ ادا کرنے کی سزا دی جاتی ہے۔
سیکشن 37 کے مطابق نازیبا یا نقصان دہ مواد کو بلاک کے زریعے بلاک کیا جاسکتا ہے۔ PTA
سوشل ایکٹوسٹ شاد بیگم سیاسی خواتین کے خلاف آن
لائن ہیٹ سپیچ کے حوالے سے بتاتی ہیں کہ ہمارا ایک ادارہ وومن پولیٹیکل ایکٹوسٹ اور لیڈرز کے سا
ساتھ ریگولر کام کرتا ہے ۔حالیہ وقتوں میں ہم نے خواتین کونسلرز کو اپنا سیاسی کیمپین چلانے اور کیریئر بنانے کیلئے سوشل میڈیا کا استعمال اور اس کی افادیت کے بارے میں ٹریننگ دی، اس دوران بہت سی خواتین سوشل میڈیا استعمال نہیں کرنا چاہتی تھی۔ جن خواتین کا پہلے سے کریئر بنا ہوتا ہے ان کے لیے پھر بھی تھوڑی بہت آسانی ہوتی ہے لیکن جو خواتین سیاسی میدان میں نئی ہوتی ہے جن میں زیادہ تر سیاسی ایکٹیوسٹ شامل ہے ان کا پروفائل اتنا مظبوط نہیں ہوتا وہ ایم این اے یا ایم پی اے نہیں ہوتی اسلۓ ان کیلۓ یہ اتنا آسان نہیں ہوتا۔
وہ مزید بتاتی ہیں کہ ہم نے سوات اور ملکنڈ کے علاقے میں وی سی(وولج کونسلر) اور ینگ پولٹیکل ورکرز کو ٹریننگ دی تو کچھ لیڈرشپ کورسز میں ہمیں پھر وہی مشکلات پیش آۓ، ہم نے ان خواتین کو اپنا فیس بک پیج، یوٹیوب اور انسٹاگرام اکاؤنٹ بنانے کیلئے رضامند کرنے کی کوشش کی کہ سوشل میڈیا سیاسی کیریئر بنانے، اپنے حلقے کے لوگوں سے کنیکٹ ہونے، ووٹ بینک بنانے اور کام کے حوالے سے موبلائزیشن کرنے میں آپ کی مدد کرسکتا ہے۔ ٹریننگ کے دوران زیادہ تر لڑکیوں نے کہا سوشل میڈیا کے استعمال پر ہم پر گھر سے پابندی ہے حالانکہ یہ وہ بچیاں تھی جو ریگولر ایک پارٹی میں کوارڈینیٹرز، مختلف عہدوں اور اختیارات پر فائز ہے اور اس پر وہ کام بھی کر رہی ہیں لیکن اس کے باوجود سوشل میڈیا کا استعمال نہیں کر سکتی۔
سوشل ایکٹوسٹ شاد بیگم کا کہنا ہیں کہ ایکٹوسٹ کے مطابق خیبر پختونخوا میں خواتین کو سوشل میڈیا استعمال کرنے میں بہت مشکلات ہیں، ہمارے ہاں اکثر خواتین کی تصاویر اور ویڈیوز سوشل میڈیا سے لے کے ان کو بلیک میل کیا جاتا ہے اور کیا گیا ہے جس سے ان کے لیے کافی مسئلے بنے اور پھر اگر سائبر کرائم میں ایف ائی اے میں رپورٹ کیا بھی ہے تو وہاں سے اس طرح ردعمل نہیں ملا ہے اس کیلۓ لمبا عرصہ تک انتظار کرنا پڑتا ہے۔ بہت ساری لڑکیاں چاہے وہ کسی بھی سیکٹر میں ہو سیاسی ہو یا معاشرتی سوشل میڈیا سے دور رہنے کو ترجیح دیتی ہے، یا اپنا اکاونٹ کسی غیر نام اور تصویر سے استعمال کرتی ہے- انہوں نےبتایا ہیٹ سپیچ ایک بہت بڑا مسئلہ ہے سوشل میڈیا ایک مثبت چیز بھی ہے جس سے ہماری خواتین سیاسی کیریئر بڑا اچھے سے بناسکتی ہے لیکن ان وجوہات کی بنا پر زیادہ تر اس سے فائدہ حاصل نہیں کر سکتی۔

