Over 8 million women came online in 2024, GSMA Report
May 14, 2025Not Just Words, Now Faces Too Have Become Weapons: A New Front of AI Against Women Journalists By Zunaira Rafi
May 14, 2025
◦ تعارف بگ ٹیک کیا ہے؟
ڈیجیٹل دور نے جہاں معلومات تک رسائی کو پہلے سے کہیں زیادہ آسان بنایا ہے، وہیں اس سہولت کے پسِ پردہ کئی پیچیدہ چیلنجز جنم لے چکے ہیں، جن میں سب سے بڑا چیلنج آزاد صحافت پر بگ ٹیک کمپنیوں کا بڑھتا ہوا کنٹرول ہے۔ گوگل، میٹا، ایکس ( ٹوئٹر) اور یوٹیوب جیسے پلیٹ فارمز اب نہ صرف معلومات کی ترسیل کے راستے طے کرتے ہیں بلکہ یہ بھی فیصلہ کرتے ہیں کہ کس خبر کو دنیا کے سامنے لایا جائے اور کسے پسِ پشت ڈال دیا جائے۔ ان پلیٹ فارمز کے الگورتھمز اکثر سنسنی خیز، جذباتی اور تفریحی مواد کو ترجیح دیتے ہیں، جبکہ تحقیقاتی اور سنجیدہ صحافت کو نظر انداز یا محدود کر دیتے ہیں، جو صحافت کی روح کے خلاف ہے۔
◦ حسنہ کی کہانی سچ کی قیمت
تحقیقاتی صحافی “حسنہ” (فرضی نام) کی کہانی اس نئی ڈیجیٹل حقیقت کا عملی ثبوت ہے۔ حسنہ ایک محنتی اور باہمت صحافی تھی جو بگ ٹیک پلیٹ فارمز پر غلط معلومات اور سنسر شپ کے اثرات پر گہرائی سے تحقیق کر رہی تھی۔ کئی مہینوں کی محنت کے بعد اس نے ایک جامع رپورٹ تیار کی، جس میں واضح کیا گیا کہ یہ بڑی ٹیک کمپنیاں کیسے مخصوص خبروں کو دبانے، سچ کو مسخ کرنے، اور آزاد صحافت کو کنٹرول کرنے میں ملوث ہیں۔ لیکن جیسے ہی وہ اپنی رپورٹ شائع کرنے کے قریب پہنچی، اسے ایک پراسرار ای میل موصول ہوئی:’’یہ رپورٹ شائع کرنے سے پہلے ایک بار سوچ لیں‘‘۔یہ دھمکی تھی یا مشورہ؟ وہ خود بھی اس وقت تک نہیں جانتی تھی۔حسنہ نے خوف کے بجائے سچ کا ساتھ دیا اور رپورٹ شائع کر دی۔ لیکن اس کے بعد جو ہوا وہ ایک ڈیجیٹل حملے سے کم نہ تھا: اس کی سوشل میڈیا پوسٹس غائب ہونے لگیں، اس کا اکاؤنٹ معطل کر دیا گیا۔یہ وہ مقام تھا جہاں واضح ہو گیا کہ ٹیکنالوجی کے میدان میں ایک نیا خطرہ ابھر رہا ہے — بگ ٹیک کا اختیار سچ کو خاموش کرنے لگا ہے۔اس ڈیجیٹل جبر کے باوجود، حسنہ نے ہار نہیں مانی۔ اس نے آزاد صحافت کے لیے آواز بلند رکھی، متبادل پلیٹ فارمز کا سہارا لیا، اور دوسرے صحافیوں کو بھی بیدار کرنے کی کوشش کی۔ اس کی جدوجہد ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ آزادیٔ اظہار اور صحافت کی بقا کے لیے صرف سیاسی یا ریاستی سینسرشپ کو چیلنج کرنا کافی نہیں، بلکہ ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کے معاشی و ادارتی اثرورسوخ کو بھی سمجھنا اور اس کا احتساب کرنا ضروری ہے۔
◦ بگ ٹیک کا بڑھتا اثر: ماہرین کی نظر سے
میڈیا میٹرز فار ڈیموکریسی کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر /فائونڈر اسد بیگ نے کہا کہ بگ ٹیک کمپنیوں کا بڑھتا ہوا اثرورسوخ آزاد صحافت کے لیے نئے اور پیچیدہ چیلنجز پیدا کر رہا ہے، جس میں سب سے اہم پہلو صحافتی اداروں کی مالی خودمختاری ہے۔ آج کے دور میں سینسرشپ صرف حکومتی دباؤ کے ذریعے نہیں، بلکہ آمدنی، رسائی اور الگورتھمز کے ذریعے کی جا رہی ہے، جہاں گوگل، میٹا اور دیگر پلیٹ فارمز مرکزی کردار ادا کر رہے ہیں۔ پاکستان میں ڈیجیٹل اشتہارات کی آمدنی تیزی سے بڑھ رہی ہے، لیکن اس کا 85 فیصد حصہ ان بڑی کمپنیوں کو جاتا ہے، جبکہ اصل صحافتی مواد تیار کرنے والے ادارے معمولی ریونیو پر گزارا کرنے پر مجبور ہیں۔ اسد بیگ کے مطابق، پاکستان میں میڈیا کی زبوں حالی کی بنیادی وجہ پیمرا کا ناقص ڈھانچہ ہے جو میڈیا کو ترقی سے روکتا ہے اور مواد پر اثرانداز ہونے کے لیے پلیٹ فارم فراہم کرتا ہے۔ روایتی ٹی وی اشتہارات میں کمی، سبسکرپشن ماڈلز کی عدم موجودگی، اور ڈی ٹی ایچ کی غیر موجودگی نے میڈیا ہاؤسز کو کمزور کر دیا ہے، جبکہ کیبل آپریٹرز ایک متوازی معیشت چلا رہے ہیں جو اصل مواد تخلیق کرنے والوں سے کہیں زیادہ کمائی کر رہے ہیں۔ ٹی آر پی سسٹم میں شفافیت کی شدید کمی ہے، اور ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کے الگورتھمز صحافتی مواد کو کمزور کرتے ہیں، جیسا کہ خود میٹا نے اعتراف کیا ہے کہ وہ خبروں کو “ڈی پرائرٹائز” کرتا ہے۔ یوٹیوب پر سب سے زیادہ آمدنی حاصل کرنے والوں کی فہرست میں کوئی صحافتی ادارہ شامل نہیں، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بگ ٹیک فیصلہ کرتا ہے کہ کس کو کتنے پیسے ملیں گے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ آزاد صحافت نہ صرف متاثر ہو رہی ہے بلکہ اپنی بقا کے لیے لڑ رہی ہے۔ آج صحافت کا سامنا اس حقیقت سے ہے کہ پہلے حکومتیں اسے کنٹرول کرتی تھیں، اور اب یہ طاقت بگ ٹیک کے پاس چلی گئی ہے، جو نہ شفاف ہیں اور نہ ہی دنیا بھر میں صحافتی اداروں کے ساتھ کسی پالیسی یا فنڈنگ کے نظام میں سنجیدہ ہیں۔ جب گوگل جیسے پلیٹ فارمز خودکار AI سسٹمز کے ذریعے صحافتی مواد نکال کر صارفین کو پیش کرتے ہیں، تو وہ اس مواد کو تخلیق کرنے والے اداروں کو نظر انداز کرتے ہوئے خود مالی فائدہ حاصل کرتے ہیں۔ لہٰذا، آزادی صحافت کے تحفظ کے لیے صرف اظہار رائے کی آزادی کافی نہیں، بلکہ میڈیا کی مالی پائیداری کو بھی بنیادی حق سمجھ کر قومی اور عالمی سطح پر پالیسی اقدامات ناگزیر ہو چکے ہیں۔
◦ تحقیقاتی صحافت اور شیڈو بیننگ: سعدیہ مظہر کا تجربہ
اسی طرح سعدیہ مظہر ایک صحافی ہونے کے ساتھ ساتھ ایکٹیوسٹ بھی ہیں اپنا تجربہ شیئر کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ مجھے ایسے حالات کا سامنا رہا ہے جہاں تحقیقاتی مواد، خاص طور پر وہ رپورٹس جو حکومتی احتساب، کرپشن یا انسانی حقوق سے متعلق تھیں، اپنی اہمیت اور بروقت ہونے کے باوجود سوشل میڈیا پر اتنی مقبولیت حاصل نہیں کر سکیں جتنی انہیں کرنی چاہیے تھی۔ بعض اوقات ہماری پوسٹس کو شیڈو بین کر دیا گیا، بغیر کسی واضح وجہ کے فلیگ کر دیا گیا، یا ان کی رسائی کو محدود کر دیا گیا۔ اس قسم کی پابندیاں ہمارے کام کے اثر کو کم کر دیتی ہیں۔ مثال کے طور پر، وہ خبریں جو عوامی اداروں کی کرپشن یا بنیادی سہولیات سے انکار کو بے نقاب کرتی تھیں، وہ ان کمیونٹیز تک نہ پہنچ سکیں جنہیں ان معلومات کی ضرورت تھی، جس سے احتساب کی کوششیں مزید مشکل ہو گئیں۔ان کا کہنا تھا کہ ٹیکنالوجی کمپنیاں عمومی پالیسی بیانات جاری تو کرتی ہیں، لیکن جب ان پالیسیوں پر عملدرآمد کی بات آتی ہے تو فیصلے مبہم اور غیر شفاف ہوتے ہیں۔ جب کوئی مواد ہٹایا جاتا ہے یا اکاؤنٹ پر پابندی لگتی ہے، تو اپیل کے باوجود اکثر کوئی واضح جواب نہیں دیا جاتا۔ صحافی، خاص طور پر خواتین، جب آن لائن ہراسانی کا نشانہ بنتی ہیں تو اکثر انہیں خودکار جوابات موصول ہوتے ہیں، حقیقی مدد نہیں ملتی۔ یہ تضادات ظاہر کرتے ہیں کہ بگ ٹیک کا نظام نہ صرف غیر شفاف ہے بلکہ آزادی صحافت کے تحفظ کے حوالے سے بھی بہت کمزور اور ناقص ہے۔انہو ں نے کہا کہ پاکستان میں جہاں مرکزی دھارے کا میڈیا سخت سنسرشپ کا شکار ہے، وہاں کئی آزاد صحافی اپنی بات کہنے کے لیے ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کا سہارا لیتے ہیں۔ لیکن بگ ٹیک کے الگورتھم اکثر اہم مواد کو ترجیح نہیں دیتے، خاص طور پر اگر وہ مقامی زبانوں میں ہو یا اس میں حساس موضوعات شامل ہوں۔ خواتین صحافی، جو پہلے ہی صنفی تعصب اور ہراسانی کا سامنا کرتی ہیں، ان پلیٹ فارمز پر مزید غیر محفوظ ہو جاتی ہیں۔ موجودہ مواد کی نگرانی کی پالیسیز آزادی صحافت کو فروغ دینے کے بجائے اکثر ریاستی بیانیے کو بڑھاوا دیتی ہیں اور تنقیدی آوازوں کو خاموش کر دیتی ہیں، جس سے سچ کی جگہ ایک خطرناک خلا جنم لیتا ہے۔
◦ اخلاقی صحافت اور سوشل میڈیا پر جدوجہد: بشریٰ اقبال حسین کی کہانی
ایتھیکل جرنلزم ٹرینر اور محفوظ بچپن مہم کی روحِ رواں، بشریٰ اقبال حسین نے سوشل میڈیا پر درپیش مشکلات اور صحافتی ذمے داریوں کے تناظر میں اپنا تجربہ شیئر کرتے ہوئے اہم نکات پر روشنی ڈالی۔انہوں نے بتایا کہ جب کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کی گئی، تو انہوں نے اس معاملے پر ٹوئٹر پر آواز بلند کی۔ تاہم، اس جرات مندانہ موقف کے نتیجے میں ان کا ٹوئٹر اکاؤنٹ معطل کر دیا گیا۔ بعدازاں، ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن اور اس کی سربراہ نگہت داد کی مدد سے ان کا اکاؤنٹ بحال کروایا گیا۔
اسی نوعیت کا واقعہ اس وقت پیش آیا جب انہوں نے فلسطینی بچوں سے متعلق ایک پوسٹ محفوظ بچپن کو فیس بک گروپ میں شیئر کیا ۔ فیس بک کی جانب سے انہیں اطلاع دی گئی کہ وہ فیک نیوز پھیلا رہی ہیں، حالانکہ وہ پوسٹ ایک معروف اور سینئر صحافی کی جانب سے تھی- بعد میں جب انہوں نے تفصیل سے چھان بین کی تو معلوم ہوا کہ وہ مواد AI-generated تھا بشریٰ کا کہنا تھا کہ”ہم میں سے اکثر انجانے میں ایسے مواد کو شیئر کر دیتے ہیں جو بظاہر مستند لگتا ہے، مگر وہ فیک ہوتا ہے۔
اس لیے لازم ہے کہ کسی بھی پوسٹ کو شیئر کرنے سے پہلے اس کی کراس چیکنگ ضرور کی جائے۔”انہوں نے خبردار کیا کہ غیر مستند مواد کی وجہ سے نہ صرف سوشل میڈیا پلیٹ فارم آپ کو وارننگ جاری کرتے ہیں، بلکہ بعض اوقات آپ کے صفحات کی ریچ کم کر دی جاتی ہے یا مکمل طور پر بند کر دیا جاتا ہے۔
ایتھیکل جرنلزم کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے بشریٰ نے کہا”اگر آپ کی معلومات تصدیق شدہ اور حقائق پر مبنی ہیں، تو چاہے کوئی آپ کو روکنے کی کوشش بھی کرے، وہ آسانی سے کامیاب نہیں ہو پائے گا، کیونکہ آپ اخلاقی بنیاد پر مضبوط ہوتے ہیں۔انہوں نے نوجوان صحافیوں اور کارکنوں کو مشورہ دیا کہ وہ سوشل میڈیا کے مختلف پلیٹ فارمز— جیسے کہ فیس بک، ٹوئٹر، انسٹاگرام، یوٹیوب، ٹک ٹاک اور واٹس ایپ گروپس—کا دانشمندی سے استعمال کریں۔ تاہم، ان کا ماننا ہے کہ سب سے بہتر یہ ہے کہ صحافیوں اور کارکنوں کے پاس اپنی مستند ویب سائٹ ہو تاکہ ان کا مواد ان کے اپنے کنٹرول میں ہو۔ریچ اور سامعین تک رسائی کے حوالے سے انہوں نے محفوظ بچپن انسٹاگرام پیج کا تجربہ بھی بیان کیا۔ ان کا کہنا ہے
ایک تربیتی ورکشاپ کے دوران، جہاں پچاس بچے موجود تھے، انہوں نے ان سے درخواست کی کہ وہ ان کا پیج
فالو کریں۔ وقتی طور پر فالورز کی تعداد بڑھی لیکن کچھ ہی دیر بعد وہ دوبارہ کم ہو گئی۔ان کا کہنا تھاکہ “میں پیڈ کمپین پر یقین نہیں رکھتی۔ اگر میرے کنٹینٹ میں جان ہے، تو لوگ خود بخود اسے فالو کریں گے۔”آخر میں انہوں نے بگ ٹیک کی پالیسیوں پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ ان کا تجربہ بتاتا ہے کہ مواد کا معیار اور عوامی مفاد سے جڑے موضوعات ہونے کے باوجود ان کے انسٹاگرام فالورز نہیں بڑھ رہے، جو کہ ایک طرح کی ڈیجیٹل ناانصافی ہے
آگے بڑھنے کا کیا حل ہے؟
◦ بگ ٹیک کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ کے رجحان کا توڑکرنے کے لیے چند بنیادی اقدامات
◦ ریگولیشن اور شفافیت
بگ ٹیک کمپنیوں کے لیے شفاف پالیسیوں اور اعتدال پسندی کے اصولوں پر عمل لازمی بنایا جائے۔
عالمی سطح پر آزادی اظہار اور آزادی صحافت کے تحفظ کے لیے ایک مشترکہ ضابطہ تیار کیا جائے۔
◦ مقامی صحافت کی مالی معاونت
حکومتوں اور اداروں کو چاہیے کہ وہ اشتہاری آمدنی کا ایک معقول حصہ مقامی صحافتی اداروں کو فراہم کریں۔
◦ ڈیجیٹل خواندگی میں اضافہ
. عام صارفین کو تربیت دی جائے کہ وہ جعلی خبروں اور گمراہ کن معلومات کو پہچان سکیں۔
◦ متبادل پلیٹ فارمز کی ترقی
صحافیوں اور میڈیا اداروں کو چاہیے کہ وہ خود مختار ڈیجیٹل پلیٹ فارمز تخلیق کریں تاکہ آزادانہ رپورٹنگ جاری رہ سکے۔
◦ سچ کی جدوجہد جاری ہے
بگ ٹیک کمپنیوں نے جہاں دنیا کو سہولت دی، وہیں آزادی صحافت کے لیے نئے خطرات بھی پیدا کیے۔
آج سنسر شپ صرف حکومتی سنسر شپ نہیں رہی، بلکہ ڈیجیٹل سنسر شپ الگورتھم شیڈو بیننگ اور مالی کنٹرول نے اسے مزید پیچیدہ اور مہلک بنا دیا ہے
مگر تاریخ گواہ ہے کہ سچ کی راہیں کبھی مکمل طور پر بند نہیں ہوتیں۔
صحافیوں، ایکٹیوسٹس اور باشعور شہریوں کی جدوجہد سے اندھیروں میں روشنی کی کرنیں پھوٹ سکتی ہیں۔
آزادی صحافت کوئی تحفہ نہیں بلکہ ایک مسلسل جدوجہد کا نتیجہ ہے
اور یہ جدوجہد آج کے دور میں پہلے سے کہیں زیادہ ضروری ہو چکی ہے

