Journalism Under Pressure in the Shadow of Big Tech – Hasna’s Battle for Truth by Bushra Sardar
May 14, 2025Online Harassment and Gendered Disinformation Faced by Women Journalists in Tribal Districts By Nazia Salarzai
May 14, 2025
’’میرا چہرہ، جو ایک لڑکی کے لیے سب سے قیمتی اثاثہ ہوتا ہے، بری طرح بگڑ گیا۔ وہ حادثہ میری زندگی کا ایک ایسا بھیانک باب تھا جس نے مجھے تقریباً ایک سال تک گھر کی چار دیواری میں قید کر دیا۔ آج بھی جب لوگ میرے چہرے کے نشانات دیکھتے ہیں تو ان کی آنکھوں میں افسوس، ہمدردی اور رحم کے جذبات جھلکتے ہیں۔ کاش وہ جان پاتے کہ ان کے یہ جملے میرے دل پر کتنے گہرے زخم لگاتے ہیں، یہ نشانات محض داغ نہیں، یہ میری ہمت اور بہادری کی مثال ہیں۔‘‘
سیدہ فائزہ گیلانی کا تعلق کشمیر سے ہے۔ جنہوں نے خاتون صحافی ہونے کی تلخ حقیقت سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ معاشرے میں خواتین صحافی پہلے ہی بے شمار چیلنجز سے نبرد آزما ہیں۔ دفتر کا دباؤ اور بعض اوقات گھریلو مسائل کی وجہ سے بھی انہیں ذہنی اذیت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اور اب، آرٹیفیشل انٹیلیجنس کے آنے سے ان پر یہ بوجھ دگنا ہو چکا ہے۔ آج کل سوشل میڈیا پر صحافیوں کی موجودگی ناگزیر ہو چکی ہے۔ بدقسمتی سے، جو صحافی سوشل میڈیا سے دور ہیں، انہیں صحافی تسلیم ہی نہیں کیا جاتا۔ مجبوری کے تحت سوشل میڈیا کا استعمال تو کرنا پڑتا ہے، لیکن پہلے تو خواتین صحافیوں کو گالم گلوچ یا ان کے کریکٹر پر کیچڑ اچھالا جاتا تھا۔ اس کے علاوہ ان کے نام سے فیک اکاؤنٹس بنا کر الٹا سیدھا مواد شئیر کیا جاتا تھا۔ مگر اب تو آرٹیفیشل انٹیلیجنس کے ذریعے کچھ بھی ممکن ہے۔ کسی کا چہرہ کسی اور کے دھڑ کے ساتھ جوڑا جا سکتا ہے، کسی کی آواز تک کسی بھی ویڈیو میں استعمال کی جا سکتی ہے۔ اس لیے میں سمجھتی ہوں کہ آرٹیفیشل انٹیلیجنس نے خواتین صحافیوں کی زندگی کو مزید کٹھن بنا دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خواتین صحافیوں میں انزائٹی اور ڈپریشن کی شرح میں تشویشناک حد تک اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔
اپنی زندگی کے مزید کچھ دردناک تجربات کا زکر کرتے ہوئے فائزہ نے بتایا کہ ان کی زندگی پہلے ہی مصائب سے گھری ہوئی ہے۔ انہوں نے نہ صرف آن لائن ہراسانی کا سامنا کیا بلکہ دو بار جسمانی حملوں جیسی خوفناک صورتحال سے بھی گزری چکی ہیں۔ جس میں سے پہلے حملے سے ان کی دونوں ٹانگیں ٹوٹ گئی تھیں۔ اور دوسری بار ان کا چہرہ شدید متاثر ہوا۔
’’حال ہی میں کسی نے میرے نام سے سوشل میڈیا پر جعلی اکاؤنٹس بنا لیے، کیونکہ میں نے توہین مذہب پر ایک اسٹوری کی تھی۔ اس کے بعد مجھے سوشل میڈیا پر دھمکیاں دی گئیں کہ تم ذرا گھر سے باہر تو نکلو’ اور دیگر دل دہلا دینے والے تبصرے کیے گئے۔ مجھے دو بار جان سے مارنے کی کوشش بھی کی گئی۔ ان واقعات کے بعد میں شدید ڈپریشن میں چلی گئی۔ یہاں تک کہ میرے نام سے واٹس ایپ اکاؤنٹ بھی بنا لیا گیا تھا۔ جس کے بعد میں بہت پریشان تھی۔ لیکن میں نے ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن سے رابطہ کیا جنہوں نے میری بھرپور مدد کی اور ان تمام اکاؤنٹس کو بند کروایا۔ میں اس قدر خوفزدہ تھی کہ کہیں کوئی ان اکاؤنٹس کو استعمال کر کے کوئی ایسا گھناؤنا کام نہ کر دے جس کا الزام مجھ پر لگا دیا جائے۔ اور مجھ پر کوئی ایسا حملہ ہو جائے جس کے بعد میرا وجود بھی باقی نہ رہے۔‘‘
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ پہلے ہی تشدد جیسے جان لیوا واقعات سے گزر چکی ہوں۔ خواتین صحافیوں کے خلاف آرٹیفیشل انٹیلیجنس کا استعمال ان کی زندگیاں تباہ کر سکتا ہے اور اب انہیں اس بات کا ہر وقت خوف لاحق رہتا ہے۔ ہر لمحہ ان کے سر پر خطرے کی تلوار لٹکتی محسوس ہوتی ہے۔ ہر وقت یہی ڈر ستاتا رہتا ہے کہ وہ ایک عورت ہیں اور کوئی ان کی ایک تصویر سے ان کی عزت کو خاک میں ملا سکتا ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ اے آئی نے خواتین صحافیوں کو مزید بے بس اور کمزور کر دیا ہے۔ کیونکہ میں ہر اسٹوری کرنے سے پہلے ہزار بار سوچتی ہوں۔ کہ اس کا انجام کس حد تک بھیانک ہو سکتا ہے۔ لیکن شاید یہ خوف مجھے آگے بڑھنے سے روکے رکھتا ہے۔ ’’ کیونکہ اپنی جان تو ہر کسی کو پیاری ہوتی ہے نہ، جینا چاہتی ہوں، اور صحافت میں نام بنانا چاہتی ہوں۔ لیکن کبھی کبھی یہ لگتا ہے کہ شاید کہیں یہ خوف اور ڈر میرے اندر سے صحافت کا جنون ختم نہ کر دے۔‘‘
اپنے صحافتی کرئیر کے متعلق بات کرتے ہوئے فائزہ کا کہنا تھا کہ وہ رپورٹس جن کی وجہ سے مجھ پر جان لیوا حملے کیے گئے اس کے بعد اہک اچھے اور بڑے ادارے نے انہیں نوکری سے نکال دیا۔ بہت سے اداروں میں نوکری کے لیے گئیں۔ مگر انہیں نوکری دینے سے انکار کر دیا گیا۔ اس ساری صورتحال نے انہیں مزید ڈپریشن میں مبتلا کر دیا تھا۔ وہ اس قدر ڈپریشن میں جا چکی تھی کہ ڈاکٹرز نے خبرادار کیا کہ اگر وہ اس سے باہر نہ آئی تو ان کا اعصابی نظام بری طرح متاثر ہو سکتا ہے۔
’’ نوکری تو جا چکی تھی۔ اس کے بعد میں سوشل میڈیا کو استعمال کرتے ہوئے کام کرنا شروع کیا۔ اور پھر مختلف غیر ملکی اداروں کے ساتھ فری لانسنگ شروع کر دی۔ یہ سچ ہیں کہ سوشل میڈیا کی بدولت صحافیوں کو آزادانہ صحافت کرنے میں مدد ملی ہے، چاہے وہ مرد ہوں یا خواتین۔ مگر جہاں مواقع پیدا ہو رہے ہیں، وہیں چیلنجز بھی بڑھتے جا رہے ہیں۔ جیسے خواتین کو تبصروں اور ان باکس میں آ کر گندی گالیاں دی جاتی ہیں۔ مارنے کی دھمکیاں دی جاتی ہیں۔ سرے عام ان کے کریکٹر کو گندگی کے ڈھیر بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ یہ سب دیکھنے کے بعد سوچتی ہوں کہ ان انتہا پسندانہ سوچ رکھنے والے کچھ لوگوں کے لیے اے آئی سے فحش ویڈیوز اور تصاویر بنانا اب کونسا کوئی مشکل کام ہے۔‘‘
یہ صرف فائزہ کی کہانی ہے۔ مگر پاکستان کی ایسی بے شمار خواتین صحافی ہیں۔ جن کے صحافتی تجربات شاید فائزہ کی زندگی سے بھی کہیں زیادہ خوفناک ہیں۔ جو ان پر بات کرنے سے گھبراتی ہیں۔ کبھی جان سے مار دیے جانے کے خوف سے، کبھی اپنی عزت کے خاطر اور کبھی نوکری سے نکال دیے جانے کے ڈر سے خاموش رہتی ہیں۔
نمرہ علی ( فرضی نام) کا تعلق ایک نامور ٹی وی چینل سے ہے۔ جنہوں نے اپنے بھیانک تجربات کے حوالے سے بتایا کہ چند مہینے قبل انہیں ان کی ایک دوست کی جانب سے ایک تصویر موصول ہوئی۔ جو وہ خود بالکل بھی نہیں تھیں۔ مگر اس تصویر میں چہرہ تقریبا ان کے چہرے سے ہی ملتا جلتا تھا۔ کیونکہ کسی نے ان ک چہرے کو کسی اور کے جسم سے جوڑنے کی ناکام کوشش کی تھی۔
’’ میں وہ تصویر دیکھ کر یک دم سے حیران پریشان رہ گئی کہ آخر یہ کیا ہے۔ میں نے جب اپنی دوست سے استفسار کیا تو اسے میری وہ تصویر فیس بک پر ایک ڈی پی پر ملی، وہ تصویر میری تھی ہی نہیں۔ صرف میرا چہرہ تھا۔ جب میں نے وہ اکاونٹ دیکھا تو کوئی میرے نام سے فیک اکاونٹ چلا رہا تھا۔ اور اس اکاونٹ پر صرف فحش مواد ہی شئیر ہوا تھا۔ یہ سب دیکھ کر میں مزید گھبرا گئی۔ کیونکہ میرے گھر سے کوئی دیکھ لیتا تو شاید مجھے ان کو یقین دلانے میں بہت مشکل ہوتی۔ اور اگر ان کو مجھ پر یقین ہو بھی جاتا تو وہ ممکن ہے کہ مجھے نوکری چھوڑنے پر مجبور کرتے‘‘
کہتی ہیں کہ انہوں نے مختلف اکاونٹس سے اس اکاونٹ کو رپورٹ کیا۔ بلکہ اپنے تمام گھر والوں کے اکاونٹس سے چھپ کر اس اکاونٹ کو بلاک بھی کیا۔ تاکہ کسی کی نظر سے نہ گزرے۔ اور تقریبا 2 مہینے انہیں اسی کشمکش میں لگے۔ اور وہ 2 مہینے ان کے لیے کسی تکلیف سے کم نہیں تھے۔ کیونکہ کسی کو بتا نہیں سکتی تھی۔ سوائے چند ایک دوستوں کو اس سب کے بارے میں پتہ تھا۔ اور کچھ ٹائم بعد میٹا کی جانب سے اکاونٹ کو بلاک بھی کر دیا گیا۔
’’مجھے اب سوشل میڈیا پر اپنی موجودگی سے خوف آتا ہے۔ ہر نئی تصویر پوسٹ کرنے سے پہلے دل کئی بار کانپتا ہے، حالانکہ میں اپنے سارے اکاونٹ پرائیویٹ کر چکی ہوں، لیکن اس کے باوجود بھی میرے اندر خوف بیٹھ چکا ہے۔ ‘‘
خواتین صحافیوں کو سوشل میڈیا کا استعمال کیسے کرنا چاہیے۔ اپنی آن لائن موجودگی کو کیسے محفوظ بنانا چاہیے؟ اگر ان پر کوئی سائبر حملہ ہو جائے تو انہیں کس سے رجوع کرنا چاہیے؟ اور اگر وہ ہیکر تک پنچنا چاہتی ہیں تو اس کا طریقہ کار کیا ہے؟
ڈیجیٹل رائٹس فاونڈیشن، سائبر ہراسمنٹ ہیلپ لائن ایسوسی ایٹ انیقہ شاہد کا کہنا تھا کہ آن لائن پوسٹ کرتے وقت کچھ باتوں سے پرہیز کرنا چاہیے جیسا کہ بغیر اجازت موسیقی، تصاویر یا ویڈیوز استعمال نہ کریں۔ کاپی رائٹ کی خلاف ورزی سے آپ کی پوسٹ کی مونیٹائزیشن اور ویزیبیلٹی متاثر ہوتی ہے، گستاخانه، پر تشدد یا دل دہلا دینے والا مواد شیئر نہ کریں، کالعدم تنظیموں کے نشانات یا لوگو استعمال نہ کریں، نفرت انگیز تقریر، جنسی مواد، مذہبی بے ادبی یا تشدد کو بڑھاوا نہ دیں یا واضح طور پر نہ دکھائیں، کسی متاثرہ شخص کی شناخت یا ذاتی معلومات شیئر نہ کریں۔ چاہے نام یا چہرہ دھندلا بھی کیا ہو، عمر، اسکول، علاقہ یا خاندان کی معلومات سے پہچان ہو سکتی ہے اس کے علاوہ بچوں سے زیادتی کے کسی بھی معاملے کا مواد شیئر نہ کریں، چاہے آگاہی کے لیے ہی کیوں نہ ہو ۔ تصاویر، اسکرین شانس یا دھندلے چہرے بھی نہیں۔ اور کوشش کریں کہ اپنی ذاتی رائے کو رپورٹنگ میں شامل نہ کریں۔
انہوں نے مزید بتایا کہ پوسٹ کرتے ہوئے چند باتوں کا دیہان رکھنا لازمی ہے۔ جیسا کہ سوشل میڈیا پر پوسٹ کرتے ہوئے پلیٹ فارم کی کمیونٹی گائیڈ لائنز ضرور پڑھیں، ہر پلیٹ فارم کے مخصوص اصولوں پر عمل کریں، اگر حساس مواد پوسٹ کر رہے ہیں تو ٹرگر وارننگ دیں، اور وضاحت ضرور کریں جیسے: ” یہ صرف آگاہی / رپورٹنگ کے مقصد سے ہے‘‘ ، پوسٹ کرنے سے پہلے معلومات کی تصدیق کریں کہ درست ہیں یا نہیں، اگر کوئی دعویٰ کر رہے ہیں تو حوالہ اور ثبوت لازمی شامل کریں اور سب سے اہم اپنے اکاؤنٹ کی سیکیورٹی وقتاً فوقتاً چیک کریں اور پاس ورڈ تبدیل کرتے رہیں۔
انیقہ نے اس حوالے سے مزید آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ اگر آپ کا اکاؤنٹ ہیک ہو جائے تو فوری طور پر ایک آگاہی پوسٹ لگائیں۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ آپ کے دوستوں، احباب اور سوشل میڈیا کے تمام حلقوں تک یہ اطلاع پہنچ جائے کہ آپ کا اکاؤنٹ ہیک ہو چکا ہے۔ اس طرح سب لوگ کسی بھی ممکنہ غلط استعمال سے باخبر رہیں گے اور کسی بڑے نقصان سے بچ سکتے ہیں۔
دوسرا اہم قدم یہ ہے کہ آپ اپنے اکاؤنٹ کو دوبارہ حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ اگر آپ نے کوئی ریکوری ای میل یا فون نمبر شامل کیا ہوا ہے، تو اس کے ذریعے اپنا پاسورڈ ری سیٹ کرنے کی کوشش کریں۔ اگر آپ کا ہیک شدہ اکاؤنٹ کسی دوسرے اکاؤنٹ سے منسلک ہے، تو اس منسلک اکاؤنٹ کے ذریعے بھی ریکوری کی کوشش کی جا سکتی ہے۔
تیسری اہم بات یہ ہے کہ جس پلیٹ فارم کا اکاؤنٹ ہیک ہوا ہے، اس کی انتظامیہ سے رابطہ کریں۔ مثال کے طور پر، اگر فیس بک، انسٹاگرام یا واٹس ایپ ہیک ہوا ہے، تو آپ کو میٹا (Meta) کو اس بارے میں اطلاع دینی چاہیے۔ ان کے ہیلپ سینٹرز پر موجود فارمز کو پُر کر کے جمع کروائیں، تاکہ آپ کی اکاؤنٹ ریکوری کی درخواست متعلقہ ڈیپارٹمنٹ تک پہنچ جائے۔
اگر آپ ہیکر تک پہنچنا چاہتے ہیں، تو پاکستان میں وفاقی تحقیقاتی ادارہ (ایف آئی اے) سائبر کرائم کے معاملات دیکھتا ہے۔ آپ اپنے شہر کے ایف آئی اے کے سائبر ہراسمنٹ ونگ میں ایک درخواست جمع کروا سکتے ہیں۔ اس درخواست کے ساتھ ہیکنگ کے ثبوت اور اپنے شناختی کارڈ کی کاپی ضرور لگائیں۔ اس کے علاوہ، ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن میٹا کے شراکت دار ہیں۔ اگر کسی صحافی کا اکاؤنٹ ہیک ہو جاتا ہے، تو وہ ان سے رابطہ کر سکتے ہیں، اور وہ میٹا کو ریکوری کی درخواست بھیج کر اکاؤنٹ بحال کروانے میں مدد کر سکتے ہیں۔
پاکستانی قوانین ہیکر تک پہنچ جانے کے بعد قانونی کارروائی کرنے میں کس حد تک مدد فراہم کرتے ہیں؟ اس سوال کے جواب میں بتایا گیا کہ اس کے لیے آپ کو ایف آئی اے میں ایک باضابطہ درخواست جمع کروانی ہوتی ہے۔ جس کے بعد آپ کو ایک ویریفیکیشن آفیسر تفویض کیا جاتا ہے، جو درخواست کے ابتدائی مرحلے سے لے کر آپ کے کیس سے متعلقہ تمام قوانین کے بارے میں آپ کو آگاہ کرتا ہے۔ درخواست کی تصدیق کے بعد، معاملہ انویسٹیگیشن آفیسر کے پاس جاتا ہے، اور پھر باقاعدہ قانونی کارروائی کا آغاز ہوتا ہے۔
یہاں سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا آرٹیفیشل انٹیلجنس واقعی اتنی میچور ہو چکی ہے۔ جس کے زریعے کسی بھی خاتون کی تصویر کو کسی بھی فحش ویڈیو یا فحش تصویر میں بدلنا ممکن ہے اور یہ بھی نہ پتہ چلا کہ یہ اے آئی سے بنائی گئی ہے؟
اے آئی ایکسپرٹ میسم رضا نے آرٹیفیشل انٹیلیجنس کے استعمال پر بات کرتے ہوئے بتایا کہ اے آئی دن بہ دن بہت زیادہ میچور ہوتی جا رہی ہے۔ یہ درست ہے کہ اے آئی کے ذریعے کسی بھی شکل کو کسی بھی جسم کے ساتھ جوڑنا انتہائی آسان ہو چکا ہے۔ آپ کا چہرہ اور آواز کسی بھی ویڈیو میں استعمال کی جا سکتی ہے۔ اس میں بھی کوئی دو رائے نہیں کہ اے آئی ایسے ٹولز متعارف کروا چکی ہے کہ اگر کسی خاتون کو ٹارگٹ کرنا ہو تو باآسانی اس کی زندگی کو تباہ کیا جا سکتا ہے۔
سب سے زیادہ افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں ان چیزوں کو پرکھنے والے ماہرین بہت کم ہیں، جس کی وجہ سے لوگ جو کچھ بھی دیکھتے یا سنتے ہیں، اس پر فوراً یقین کر لیتے ہیں۔ حالانکہ اے آئی، جتنی بھی میچور ہو چکی ہے، اب تک وہ اتنی پرفیکشن کے ساتھ اس طرح کے ٹاسک پرفارم نہیں کر سکتی۔ اگر ہم ان ویڈیوز یا تصاویر کا باریک بینی سے جائزہ لیں، جو اے آئی سے بنائی گئی ہیں، تو ان کی حقیقت کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
مگر بدقسمتی سے ہمارے ہاں اس حوالے سے کوئی آگاہی موجود نہیں، جس کی وجہ سے ہمارے معاشرے میں خواتین کو زیادہ چیلنجز کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
میسم رضا نے مزید بتایا کہ جس تیزی سے آرٹیفیشل انٹیلیجنس پر کام ہو رہا ہے، جلد ہی یہ بہت پرفیکشن سے کام کرنے لگے گی، جو پوری دنیا میں تہلکہ مچا سکتی ہے اور دنیا کو تباہی کے دہانے تک لے جا سکتی ہے۔ تاہم، امید کی جا سکتی ہے کہ اس کے ساتھ ایسے ٹولز بھی سامنے آ جائیں گے، جن کی مدد سے یہ جانچنا آسان ہو جائے گا کہ مواد اے آئی سے بنایا گیا ہے یا حقیقی ہے۔
وہ خواتین صحافی جو کسی بھی قسم کی ذہنی اذیت سے گزر رہی ہوں، انہیں فوری طور پر کیا کرنا چاہیے؟ کس قسم کی عادات کو اپنانا چاہیے؟ اور کن چیزوں سے پرہیز کرنا چاہیے؟
ماہر نفسیات ڈاکٹر سہرش افتخار کا کہنا تھا کہ پاکستان میں صحافی جس ذہنی اذیت سے گزر رہے ہوتے ہیں۔ وہ سب جانتے ہیں۔ کبھی انہیں غائب کر دینا، کبھی ان کے ساتھ کوئی ٹارگٹڈ حادثہ پیش آنا، اور خاص طور پر خواتین صحافیوں کی عزتوں کو جس طرح سے ٹارگٹ کیا جاتا ہے۔ کسی بھی شخص کو ذہنی تناو میں مبتلا کر سکتا ہے۔
کہتی ہیں کہ خواتین بچے، گھریلو مسائل، اور پھر نوکری کے مسائل، ہر چیز سے ایک ہی وقت میں نمٹ رہی ہوتی ہیں۔ اور پھر ان کے کام کی بنا پر انہیں ذہنی اور جسمانی تشدد بنانا، ایسے حالات میں ان کا شدید خوف، اضطراب اور ڈپریشن کا شکار ہونا فطری امر ہے۔ ملازمت پیشہ خواتین کے لیے تو اپنی ذہنی صحت کا تحفظ انتہائی ضروری ہے۔ ان منفی اثرات سے نمٹنے اور اپنی زندگی کو دوبارہ معمول پر لانے کے لیے کسی قابل اعتماد ماہر نفسیات یا کونسلر سے رابطہ کرنا سب سے پہلا اور اہم قدم ہے۔ کیونکہ ایک ماہر ہی آپ کو اپنے صدمات اور خوف پر قابو پانے، جذباتی مسائل کو حل کرنے اور صحتمند رہنے کی حکمت عملی تیار کرنے میں مدد کر سکتا ہے۔ سی بی ٹی اور ای ایم ڈی آر جیسی تھراپیز ذہنی سکون بحال کرنے میں کافی مفید ثابت ہو سکتی ہیں۔
’’ اگر آپ کسی ماہر نفسیات سے رجوع نہیں کرنا چاہتے یا کسی بھی وجہ سے آپ جانے میں دیر کر رہے ہیں۔ اس وقت تک ضروری ہے کہ آپ اپنے گھر والوں، دوستوں اور اپنے پارٹنر کے ساتھ اپنے تجربات اور احساسات کو شئیر کریں۔ ان کی جانب سے جزباتی سہارا اور ہمدردی آپ کو تنہائی سے نکالنے میں مدد دے گی۔ اس کے علاوہ گھر والوں اور دوستوں کے ساتھ ہونے سے انسان میں حوصلہ پیدا ہوگا۔‘‘
اگر آپ مسلسل ذہنی تناو محسوس کر رہے ہیں۔ تو بہت ضروری ہے کہ آپ خود کو کچھ ایسی سرگرمیوں میں مگن کر لیں۔ جو آپ کو پسند ہوں۔ تاکہ آپ کو زیادہ سوچنے کا وقت ہی نہ ملے۔ اس کے علاوہ یہ سب سے بہترین بات ہوتی ہے کہ آپ کو محسوس ہو جائے کہ آپ ذہنی تناو کا شکار ہو رہے ہیں۔ کیونکہ یوں آپ خود کو زیادہ جلدی اس صدمے سے باہر لا سکتے ہیں۔ متوازن غذا، باقاعدگی سے ورزش کرنا اور مناسب نیند لینا مزاج اور توانائی کی شطح کو بہتر بنانے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔
اگر سوشل میڈیا آپ کے لیے پریشانی کا باعث بن رہا ہو تو اس کے استعمال کو محدود یا کچھ ٹائم کے لیے مکمل طور پر بند کر دینا ہی بہتر ہوتا ہے۔ تاکہ جو چیز آپ کو پریشان کر رہی ہے۔ اس سے آپ کو چھٹکارا مل جائے۔ صرف ان لوگوں اور اکاؤنٹس کو فالو کریں جو مثبت اور حوصلہ افزا ہوں۔ اپنی آن لائن موجودگی کو محفوظ بنانے کے لیے پرائیویسی سیٹنگز کا استعمال کریں اور کسی بھی دھمکی یا ہراسانی کی صورت میں فوری طور پر متعلقہ حکام کو رپورٹ کریں۔‘‘
اپنے جیسے تجربات سے گزرنے والی دیگر خواتین صحافیوں کے ساتھ اپنی کہانیاں اور تجربات بانٹیں۔ ایک دوسرے کی مدد کرنا اور ایک مضبوط کمیونٹی بنانا آپ کو تنہا محسوس ہونے سے بچا سکتا ہے اور آپ کو مزید طاقت دے سکتا ہے۔
