Not Just Words, Now Faces Too Have Become Weapons: A New Front of AI Against Women Journalists By Zunaira Rafi
May 14, 2025Privacy Threats and Intimidation Faced by Investigative Journalists (Urdu) By Saeeda Salarzai
May 14, 2025
جیسا کہ ہم سب کو معلوم ہے کہ قبائلی اضلاع میں خواتین صحافی بالکل نہ ہونے کے برابر ہے اور جو ہے وہ بھی انتہائی مشکلات کا سامنا کر رہی ہے، کیونکہ وہاں پر خواتین کی صحافت کو اچھا نہیں سمجھا جاتا اور نہ ہی ان کو کوئی سہولیات میسر ہے۔ جو چند قبائلی خواتین صحافی ہے وہ آنلائن ہراسانی کا شکار ہوتی ہے۔ آئے روز ان کو غلط کمنٹس، دھمکیاں، گالیاں اور بھی طرح طرح کی باتیں سننے کو ملتی ہے جس کی وجہ سے ان کے خاندان والے پھر ان کو مزید کام کرنے سے منع کرتے ہیں۔
خواتین صحافی آنلائن ہراسمنٹ کی وجہ سے اضطراب اور تناؤ کا سامنا کرتی ہے جو بلآخر ڈپریشن کا باعث بن سکتی ہے۔ اس کے علاوہ ان خواتین صحافیوں کی پیشہ ورانہ زندگی کے ساتھ ساتھ مستقبل میں کام کرنے کی صلاحیت متاثر ہو سکتی ہے۔ خواتین صحافی آنلائن ہراسمنٹ کی وجہ سے معاشرتی تنہائی کا بھی شکار ہو سکتی ہے۔ اور ان سب سے بڑھ کر خواتین صحافیوں کے اظہار راۓ آزادی پر بھی وار ہے۔
قبائلی ضلع مہمند سے تعلق رکھنے والی صحافی ناہید جہانگیر جو پشاور کے سرکاری ہسپتال لیڈی ریڈنگ میں اسسٹنٹ میڈیا مینیجر کی نوکری پر فائز ہے انہوں نے بتایا کہ “میں خیبر پختونخوا کی پہلی خاتون صحافی تھی جس نے پاکستان ٹیلی ویژن (پی ٹی وی) ریڈیو پاکستان میں بطور نیوز اینکر کام کیا، اس کے بعد ٹرائیبل نیوز نیٹ ورک (ٹی این این) میں بطور نیوز اینکر اینڈ ایڈیٹر کام کیا، اور پہلی خاتون صحافی تھی جس نے پشتو زبان میں ٹرائیبل نیوز نیٹ ورک کے لیۓ بطور فیس بک لائیو نیوز اینکر کام کیا۔ جس کی وجہ سے مجھے آئے روز آنلائن ہراساں کیا جاتا تھا، کمنٹس اس قدر دل دکھانے والے ہوتے تھے جس ادارے کی طرف سے ڈیلیٹ بھی کیۓ جاتے تھے مگر آئے روز ڈیلیٹ کرنا مشکل ہو جاتا تھا۔ اکثر میں اپنا دل بڑا کر کے ان کمنٹس کو اگنور کر دیتی تھی مگر اس میں معاشرے کا بھی بڑا کردار ہے کیونکہ لوگ پھر مجھے کمنٹس سے سکرین شاٹس لے کر دکھاتے تھے اور واٹس ایپ میں بھی بھیج دیتے تھے کہ یہ دیکھیں آج پھر آپ کو کتنی گالیاں کسی نے دی ہیں، یہ دیکھیں آپ کے بارے میں فلانے نے کیا بولا ہے، مگر میں پھر بھی اگنور کرتی تھی کیونکہ یا تو میسجز کو لے کر پریشان ہو کر گھر بیٹھ جاتی اور یا اپنا کام جاری رکھتی۔ میں نے اپنی محنت جاری رکھی اور آج میں لیڈی ریڈنگ ہسپتال میں اسسٹنٹ میڈیا مینیجر کی نوکری پر فائز ہوں ابھی بھی آنلائن ہراسانی ہوتی ہے مگر یہ اب ہماری زندگی کا معمول بن چکا ہے جس کو اگنور کرنا ہی واحد حل ہے“
قبائلی ضلع مہمند سے تعلق رکھنے والی صحافی وگمہ فیروز جو نیشنل اور انٹرنیشنل میڈیا سے وابسطہ ہے اور ڈاکیومینٹری فلم میکر بھی ہے، انہوں نے بڑے افسوس کے ساتھ بتایا کہ “آنلائن ہراسمنٹ اور جینڈرڈ ڈس انفارمیشن کا تو میں روز شکار ہوتی ہوں کیونکہ ایک صحافی کا کام ہی یہ ہوتا ہے کہ وہ لوگوں کے مسائل میڈیا پر لائیں اور ان کا حل ڈھونڈنے کی کوشش کریں مگر اس کے ساتھ ساتھ ہم خواتین صحافی عوام کی نظروں میں آ جاتی ہیں۔ بڑے مشکل سے ہمارے کام کی تعریف ہوتی ہے اور باقی تو تنقید ہی تنقید۔ مجھے تو سب سے زیادہ میرے چھوٹے بالوں کی وجہ سے ہراساں کیا جاتا ہے اور مجھے یہ بھی کہا جاتا ہے کہ آپ تو سرے سے پختون ہو ہی نہیں کیونکہ پختونوں کی خواتین اتنے چھوٹے بال نہیں رکھتی اور وہ سروں پر دوپٹے لیتی ہے۔ اس کے علاوہ مجھے یہ بھی کہا جاتا ہے کہ آپ نہ تو مرد ہے اور نہ ہی خاتون بلکہ آپ تو ایک خواجہ سرا ہے، آپ کی بات کون سنے گا آپ تو ہماری خواتین کو بگاڑ رہی ہیں۔ پہلے مجھے بہت زیادہ تکلیف ہوتی تھی اب بھی ہوتی ہے مگر اپنے خاندان کی خاطر میں خاموش ہو جاتی ہوں کیونکہ دھمکیاں دینے والے لوگ میرے خاندان کو نقصان پہنچا سکتے ہیں اپنے لیے نہ سہی لیکن اپنے خاندان کے لیے سب کچھ برداشت کر لیتی ہوں۔ آئے روز مجھے آنلائن یہی کہا جاتا کہ آپ تو اسلام آباد یا باہر رہتی ہونگی آپ کو پختونوں کے مسائل کا کیا پتہ، آپ تو قبائلی علاقوں کے نام پر ایوارڈز لیتی ہے، پتہ نہیں آپ کو پشتو آتی بھی ہے کہ نہیں آپ زرا پشتو کےدو تین الفاظ تو سنائیں مگر ان کو نہیں پتہ کہ میں بی بی سی پشتو کے لیے بھی کام کرتی ہوں۔ ہمارے کچھ اپنے ہی ہوتے ہیں جن کو ہماری پرسنل باتوں کا زیادہ پتہ ہوتا ہے جب وہ ہمیں سامنے سے ہراس نہیں کر سکتے تو وہ پھر ہمیں فیک سوشل میڈیا کے اکاؤنٹس کے زریعے ہراساں کرتے ہیں تو تب زیادہ تکلیف ہوتی ہے کیونکہ انجان لوگوں کو ہمارے اندرونی معاملات کا کیا پتہ۔ اور ان سب کی وجہ سے ہم خواتین صحافی زہنی تناؤں کا شکار رہتی ہے“
قبائلی علاقہ حسن خیل سے تعلق رکھنے والی صحافی شمائلہ آفریدی نے بتایا کہ ”میرے کام کی وجہ سے آئے روز مجھے آنلائن ہراساں کیا جاتا ہے اور ان ہی کمنٹس کو لے کر میرے رشتہ دار اس کا مذاق اڑاتے ہیں اور ایک دوسرے کے ساتھ شیئر کرتے ہیں کہ دیکھو آج پھر شمائلہ آفریدی کو عجیب عجیب کمنٹس کیے گئے ہیں۔ اکثر تو ایسا بھی ہوتا ہے کہ میرے رشتہ دار میرے گھر والوں کے کان بھرتے ہیں اور ان کو کہتے ہیں کہ شمائلہ آفریدی کو کہیں کہ آپ یہ صحافت چھوڑ دیں کیونکہ یہ ہمارے غیرت کے خلاف ہے اور آپ کی وجہ سے ہمیں طرح طرح کی باتیں سننے کو ملتی ہے مگر میں اپنے آپ کو خوش قسمت سمجھتی ہوں کیونکہ میرے گھر والے میرے ساتھ کھڑے ہیں۔ ہمارے قبائلی علاقوں میں جب معاشرہ کسی لڑکی کے کام کے خلاف ہو جاتا ہے تو سب سے پہلے وہ اس کے گھر والوں کو ڈراتے دھمکاتے ہیں اور پھر اس کے گھر والے اس کو کام کرنے سے منع کرتے ہیں خواہ وہ تعلیم ہو، صحافت ہو، نوکری ہو یا کوئی اور شعبہ۔ جب بھی مجھے کوئی دھمکی ملتی ہے یا مجھے آنلائن ہراساں کیا جاتا ہے تو مجھے اس سے اور بھی زیادہ طاقت ملتی ہے اور میں اور بھی کوشش کرتی ہوں کہ اس سے اور بھی اچھا کام کروں کیونکہ میں ڈرنے والی نہیں اور نہ ہی یہ آنلائن ہراسگی میرے حوصلے پست کر سکتے ہیں۔ کسی کے غلط کمنٹ کی وجہ سے یا معاشرے کی وجہ سے اگر ایک لڑکی گھر بیٹھ جاتی ہے تو اس سے وہ ایک ذہنی کیفیت یا ڈپریشن میں چلی جاتی ہے کیونکہ اس کے سارے خواب چکنا چور ہو جاتے ہیں اور وہ ایک زندہ لاش بن جاتی ہے جو انسانیت کے خلاف ہے“
قبائلی علاقہ جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والی صحافی اور رضیہ محسود ڈیویلپمنٹ فاؤنڈیشن کی چیئر پرسن رضیہ محسود نے بتایا کہ “قبائلی اضلاع بالخصوص وزیرستان میں خواتین کا صحافت کرنا انتہائی مشکل کام ہے۔ میں وہاں کی پہلی خاتون صحافی ہوں۔ میں شمالی وزیرستان جنوبی وزیرستان ٹانک، ڈی آئی خان اور لکی مروت کے مسائل پر رپورٹنگ کرتی ہوں۔ ان علاقوں میں ایک خاتون صحافی کا فیلڈ میں جانا ناممکن سا ہے بلکہ ان علاقوں میں تو مرد صحافی بھی انتہائی مشکل سے صحافت کرتے ہیں کیونکہ یہ علاقے انتہائی بدامنی کا شکار رہے ہیں اور اب بھی ہے۔ خاتون صحافی ہونے کے ناطے میں نے بہت سے مشکلات جھیلی ہیں اوراب بھی بہت سے مشکلات کا سامنا کر رہی ہوں مگر میں صحافت نہ کروں تو آخرکون کریں؟ قبائلی اضلاع کے لوگوں میں سوشل میڈیا، سائبر کرائم اور سائبر سیکیورٹی کے حوالے سے آگاہی نہیں ہے اور نہ ہی ان کو کوئی ٹریننگ دی گئی ہے کیونکہ اگر ان لوگوں میں شعور آ جائے تو آنلائن ہراسمنٹ میں کافی حد تک کمی آ سکتی ہے۔ جب ایک خاتون سوشل میڈیا پر ایکٹیو ہوتی ہے تو دوسری طرف ہمارے مخالفین بھی ہوتے ہیں جو ہم پر کڑی نظر رکھتے ہیں۔ لوگ اکثر میری تصاویر کو ایڈیٹ کرنے کی کوشش بھی کرتے ہیں جو انتہائی نا مناسب ہے۔ اگر کوئی کہتا ہے کہ خواتین صحافیوں کو کوئی مشکلات نہیں تو یہ میں نہیں مانتی۔ لوگوں کو مجھے ہراساں کرنے کے بجائے میرے کام کی تعریف اور حوصلہ افزائی کرنی چاہیے کیونکہ میری رپورٹنگ انتہائی حساس علاقوں سے ہوتی ہے۔
قبائلی ضلع مہمند سے تعلق رکھنے والی صحافی رانی عندلیب نے بتایا کہ “آرٹیفیشل انٹیلیجنس کا دور ہے اور مجھے سب سے زیادہ خوف آرٹیفیشل انٹیلیجنس کے غلط استعمال سے رہتا ہے کیونکہ میں اکثر سوشل میڈیا پر جب اپنی تصاویر لگاتی ہوں تو یہ ڈر رہتا ہے کہ کب کون میری تصاویر سے فیک نازیبا ویڈیو بنائیں اور سوشل میڈیا پر شیئر کردیں اور اسی وجہ سے جب میں اپنی تصاویر سوشل میڈیا پر لگاتی ہوں تو وہ صرف اپنے قریبی لوگوں کو دکھائی دیتی ہیں کیونکہ ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں تو وہاں پر سچائی کو اتنا تسلیم نہیں کیا جاتا جس طرح سے افواہوں پر یقین کیا جاتا ہے۔ اور ان سب کی وجہ سے جنڈر ڈس انفارمیشن عروج پر ہے۔ ہمارے معاشرے میں جب کسی کی کوئی تصاویر یا ویڈیو لیک ہوتی ہے خواہ وہ فیک ہی کیوں نہ ہو تو پھر بھی لوگ یہ کہتے ہیں کہ یہ فیک نہیں بلکہ اصل ہی ویڈیو ہے یہ لوگ اپنے آپ پر پردہ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں اور جھوٹ بولتے ہیں کہ یہ ہم نہیں ہیں۔ پختون خواتین کے لیے صحافت کرنا کوئی آسان کام نہیں مگر پھر بھی میری کوشش ہوتی ہے کہ اپنی صحافت جاری رکھوں“
ایڈوکیٹ پشاور ہائی کورٹ مہویش محب کاکا خیل نے خواتین صحافیوں کے آنلائن ہراسمنٹ اور جینڈرڈ ڈس انفارمیشن کے حوالے سے بتایا کہ “کوئی بھی خاتون صحافی اگر حساس رپورٹنگ کرتی ہے تو ان کو آنلائن ہراسمنٹ اور سائبر سٹالکنگ کے زریعے تنگ کیا جاتا ہے۔ مگر پیکا ایکٹ کا سیکشن 21 آنلائن ہراسمنٹ اور سائبر سپیس میں کسی پر زبردستی کرنے کو ڈیل کرتا ہے جبکہ سیکشن 24 سائبر سٹالکنگ کو ڈیل کرتا ہے، کیونکہ جب کسی صحافی کا تعقب ھوتا ہے تب ہی اس کو آسانی سے تنگ اور ہراساں کیا جا سکتا ہے۔ پیکا ایکٹ کا سیکشن26A جینڈرڈ ڈس انفارمیشن کو ڈیل کرتا ہے اور اس سیکشن کے تحت جینڈرڈ ڈس انفارمیشن پھیلانے والے کو تین سال قید اور 20 لاکھ تک جرمانہ ادا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اگر صحیح معنوں میں ان سیکشنز پرعمل کیا جائیں تو کافی حد تک آنلائن ہراسمنٹ میں کمی آ سکتی ہے“
سارہ خان جو پشاور کے ایک ہسپتال میں بطور کلینیکل سائیکالوجسٹ کام کر رہی ہے، انہوں نے خواتین صحافیوں پر آنلائن ہراسمنٹ اور جینڈرڈ ڈس انفارمیشن کے بارے میں بتایا کہ “میرے پاس کئ خواتین صحافیوں کےکیسز آئے ہیں جن کی میں نے کاؤنسلنگ بھی کی ہے۔ آنلائن ہراسمنٹ اور جینڈرڈ ڈس انفارمیشن تو خواتین صحافیوں پر بہت زیادہ ہے اس کی وجہ سے وہ آئے روز سٹریس میں بھی رہتی ہیں۔ خواتین صحافیوں پر آنلائن ہراساں کرنے کے ذہنی اثرات شدید اور دیرپا ہوسکتے ہیں جس کے کچھ عام اثرات جذباتی تکلیف، اضطراب اور خوف، صدمہ اور کام میں دلچسپی کا کم ہونا ہو سکتے ہیں۔ آنلائن ہراساں کرنا تکلیف دہ ہوسکتا ہے خاص طور پراس وقت جب کسی صحافی کو دھمکیاں ملے، نفرت انگیز جملے بولے جائیں، یا ان پر ذاتی حملے کیے جائیں۔ اور ان سب کی وجہ سے ایک خاتون صحافی اس طرح رپورٹنگ نہیں کر پاتی جس طرح وہ چاہتی ہے۔ خواتین صحافیوں پر آن لائن ہراساں کرنے کے ذہنی اثرات کی شدت کو تسلیم کرنا اور مدد کے حصول کے لئے ان کے لئے معاونت، وسائل اور محفوظ جگہیں فراہم کرنا بہت ضروری ہے“
خیبر پختونخواہ اومبڈز پرسن فار پروٹیکشن آف ویمن اگینسٹ ہراسمنٹ ایٹ ورک پلیس، رخشندہ ناز نے بتایا کہ “آئے روز خواتین صحافی آنلائن ہراساں ہوتی ہے، آج کل آرٹیفیشل انٹیلیجنس کے زریعے ان کی فیک تصاویر، ویڈیوز، آڈیوز اور میسیجزعوام کے درمیان پھیلائی جاتی ہے جو کہ انتہائی خطرناک عمل ہے۔ بطور اومبڈز پرسن مجھے بھی آنلائن ہراساں کیا گیا تھا میرے تمام سوشل میڈیا کے اکاؤنٹس کو ہیک کیا گیا تھا۔ اس وقت ایک ہی ادارہ تھا ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن کا جس نے مجھے فوری طور پر ہراسمنٹ سے بچایا اور میرے تمام سوشل میڈیا کے اکاؤنٹس جو ہیک ہو گئے تھے دوبارہ بحال کروائے، کیونکہ اس وقت اگر ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن وقتی طور پر عمل میں نہ آتی تو میرے تمام ہیک شدہ سوشل میڈیا کے اکاؤنٹس میرے خلاف غلط طریقے سے استعمال کیے جا سکتے تھے۔ ایف آئی اے کے مقابلے میں مجھے ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن کی زیادہ سپورٹ ملی۔ پہلے بھی مجھے خواتین کی ہراسمنٹ کے کئی شکایات موصول ہوئی ہیں جن کو پھر میں نے لیگل مدد فراہم کی ہے اور زیادہ کیسز ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن کے حوالہ کئے ہیں۔ اب بھی جب مجھے کسی خاتون صحافی یا کسی عام خاتون کی ہراسمنٹ کے حوالے سے کوئی شکایات موصول ہوتے ہیں تو میں فوراً اس کو ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن کو ریفر کرتی ہوں کیونکہ ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن ہراسمنٹ کے حوالے سے بہت زیادہ سنجیدہ ہے“
جینڈرڈ ڈس انفارمیشن کے حوالے سے رخشندہ نے بتایا کہ “خیبر پختونخواہ میں جینڈرڈ ڈس انفارمیشن بہت زیادہ ہے، خواہ وہ میمز کی شکل میں ہو، سٹیریو ٹائپس کی شکل میں ہو، ہیٹ سپیچ ہو یا خواتین کے خلاف کوئی اور پرویپیگنڈا ہو سوشل میڈیا پر بغیر کسی تصدیق کے پھیلائے جاتے ہیں جس کا اثر خواتین کے ذہنوں پر ہوتا ہے۔ میری پوری کوشش ہوتی ہے کہ ہراسمنٹ کہی بھی ہو رہی ہو خواہ وہ آنلائن ہو اور یا ایٹ ورک پلیس ہو کو روک سکوں اس ہی وجہ سے میں ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن اور سائبر کرائم یونٹ کے ساتھ مل کر کام کرتی ہوں تاکہ کوئی بھی خاتون اس سے نہ گزرے۔ اداروں کو شفافیت سے کام لینا چاہئے تاکہ کوئی بھی کسی خاتون کو اپنا آسان شکار نہ بنا سکے۔ سوشل میڈیا جتنا مردوں کے لیے ہے اتنا ہی خواتین کے لیے بھی ہے۔ اسی ہراسانی کی وجہ سے خواتین کی آنلائن سپیسز میں موجودگی انتہائی کم ہے۔ خواتین صحافیوں کو آنلائن ہراسمنٹ اور جینڈرڈ ڈس انفارمیشن کے شدید اثرات سے بچا کر ہم ایک محفوظ، جامع اور قابل احترام آنلائن ماحول پیدا کرسکتے ہیں“
