AI, Platform Profiteering Through Hate, and the Feminist Reckoning Pakistan Urgently Needs by Hija Kamran
June 20, 2025IT Minister reaffirms government commitment to 5G rollout as mobile users cross 200m
June 20, 2025’’ ہم لوگ کسی مذہبی درسگاہ یا کسی مذہبی محفل میں بھی بیٹھ جائیں تو ہم پر ایسے فتوے لگائے جاتے ہیں۔ کہ عوام کا ایک گروہ ہمیں صرف کفن میں لپٹا ہوا دیکھنا چاہتا ہے۔‘‘
شہزادی رائے کراچی سے تعلق رکھنے والی خواجہ سرا ہیں۔ جنہوں نے صنفی تفریق کی وجہ سے آن لائن نفرت انگیز مواد اور مہمات کے حوالے سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ 2021 میں جب شریعت کورٹ میں ٹرانس جینڈر پرسنز (پروٹیکشن آف رائٹس) ایکٹ کو چیلنج کیا گیا، تو میں نے بطور ڈیفینڈر عدالت میں اس قانون کا دفاع کیا۔ میرا مؤقف مکمل طور پر آئینی اور قانونی بنیادوں پر مبنی تھا، لیکن اس کے ردِعمل میں سوشل میڈیا پر میرے خلاف ایک شدید اور منظم نفرت انگیز مہم کا آغاز ہوا۔
اس مہم میں مجھے محض ایک ڈیفینڈر کے طور پر نہیں بلکہ اسلام دشمن، “یہودی ایجنٹ” اور ملک مخالف عناصر کے طور پر پیش کیا گیا۔ جھوٹے اور من گھڑت الزامات لگائے گئے، میرے خاندان، ذاتی زندگی اور ماضی کو نشانہ بنایا گیا، اور میرے گھر کا پتہ تک سوشل میڈیا پر شائع کر دیا گیا۔ نتیجتاً شدت پسند افراد نے میرے گھر آ کر احتجاج کیا، دروازے پر ہنگامہ کیا، اور بار بار مجھے اور میرے اہلِ خانہ کو خوفزدہ کرنے کی کوشش کی۔ اس سے نہ صرف میری بلکہ میرے اہل خانہ کی بھی ذہنی حالت شدید متاثر ہوئی۔
میں نے متعدد بار پولیس میں شکایات درج کروائیں، ایف آئی آرز کٹوائیں، لیکن عملی تحفظ یا مکمل قانونی کارروائی نہ ہونے کے باعث یہ مہم رُکنے کی بجائے مزید بڑھتی گئی۔
افسوسناک پہلو یہ ہے کہ کچھ مشہور شخصیات نے بھی اس مہم میں حصہ لیا۔ اس کی وجہ سے یہ نفرت اب تک جاری ہے اور میری زندگی کے ہر پہلو پر سایہ فگن ہو چکی ہے۔ میری ذاتی معلومات، تصاویر، اور نجی لمحات کو بار بار سیاق و سباق سے ہٹا کر وائرل کیا جاتا ہے، اور انہیں جھوٹے بیانیے کے ساتھ پھیلایا جاتا ہے۔
میرے لیے سب سے زیادہ تکلیف دہ لمحہ وہ تھا۔ جب ایک موقع پر میں “آج ٹی وی” کی رمضان ٹرانسمیشن میں بطور مہمان شریک ہوئی۔ اس کے بعد “ایکس” (سابقہ ٹوئٹر) پر ایک منفی ٹرینڈ شروع ہوا جس میں کہا گیا کہ “شہزادی کو بلانا اسلام کی توہین ہے”۔ اتنا دباؤ ڈالا گیا کہ چینل نے نہ صرف میرے ساتھ معذرت کی، بلکہ میری تمام ویڈیوز سوشل میڈیا سے ہٹا دیں، اور یہاں تک کہ مجھ سے مطالبہ کیا کہ میں اپنے ذاتی اکاؤنٹ سے بھی متعلقہ تصاویر اور مواد ڈیلیٹ کر دوں۔
یہ سب کچھ صرف ایک مرتبہ نہیں ہوا۔ ہر چند ہفتوں بعد میری کسی تصویر یا ویڈیو کو سیاق و سباق سے ہٹا کر ایک نئی نفرت انگیز مہم شروع کر دی جاتی ہے۔ منظم گروہ اور سوشل میڈیا “ٹیمز” جان بوجھ کر ان پوسٹس کو وائرل کرتے ہیں، اور جھوٹ اس شدت سے دہرایا جاتا ہے کہ وہ سچ محسوس ہونے لگتا ہے۔ ہم خواجہ سراوں کے لیے تو پہلے ہی یہ معاشرہ اتنا تنگ ہے۔ کہ شاید ہمارا سانس لینا بھی ان کے لیے توہین ثابت ہو جاتا ہے۔
مجھ پر کئیں بار جسمانی حملے ہو چکے ہیں، اور اب مجھے ہر قدم پر احتیاط برتنی پڑتی ہے۔ سوشل میڈیا استعمال کرتے ہوئے خوف کا عنصر مستقل موجود ہوتا ہے۔ ہم ایک جدید دور میں جی رہے ہیں، لیکن افسوس اس بات کا ہے۔ کہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز آج تک اس قسم کی مہمات کو روکنے یا کنٹرول کرنے کے لیے مؤثر نظام متعارف نہیں کر سکے۔
سوشل میڈیا کے فائدے ضرور ہیں، لیکن جب وہ نفرت، تشدد اور جھوٹ کو پھیلانے کا ذریعہ بن جائے، تو اس کے نقصانات ناقابلِ تلافی ہو جاتے ہیں۔ ایک جھوٹا ٹرینڈ کسی کی زندگی کو خطرے میں ڈال سکتا ہے۔ اور میری کہانی اس سچائی کی ایک زندہ مثال ہے۔
پاکستان میں خواجہ سرا (ٹرانس جینڈر) کمیونٹی کو مختلف سطحوں پر امتیازی سلوک، تشدد اور سماجی نظراندازی کا سامنا ہے۔
ہومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے مطابق، جنوری 2021 سے اگست 2023 کے درمیان تین صوبوں میں 72 تشدد کے واقعات رپورٹ ہوئے، جن میں جنسی تشدد کے کیسز بھی شامل ہیں۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے 2023 میں وفاقی شریعت کورٹ کے فیصلے کو تنقید کا نشانہ بنایا، جس میں ٹرانس جینڈر افراد کے حقوق کو اسلامی اصولوں کے خلاف قرار دیا گیا تھا۔ ایمنسٹی نے اس فیصلے کو بین الاقوامی انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیا۔
یہ رویہ محض صنفی شناخت تک محدود نہیں، پاکستان میں مذہبی اقلیتوں کو بھی اسی نوعیت کی منظم سوشل میڈیا مہمات، ساکھ کشی، اور سماجی تفریق کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کیونکہ یہ نفرت نہ جانے کس کس بنیاد پر پنپتی ہے، ہمارے معاشرے میں عقیدہ، شناخت، اور پس منظر بھی وہ دیواریں بن چکے ہیں، جن کے پیچھے کئی سچ دبائے جاتے ہیں۔ ایسی بے شمار زندگیاں ہیں جو انہی دیواروں کے سائے میں جینے پر مجبور ہیں، جہاں صرف مذہب یا اقلیت ہونا ہی جرم بن جاتا ہے۔
اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والی سارہ جوزف (فرضی نام) بھی کچھ ایسے ہی حالات سے دوچار ہیں۔ سارہ جوزف ایک آرٹسٹ ہیں۔ اور کبھی ایک سکول میں بطور آرٹ ٹیچر کام کرتی تھیں۔کہتی ہیں۔ کہ میرا تعلق اس شہر سے تھا۔ جہاں لوگ بظاہر تو روشن خیال ہیں، مگر دلوں میں اندھیرے چھپائے پھرتے ہیں۔ بچپن سے یہی سیکھا تھا کہ اپنا کام کرو، نظریں جھکا کر چلو، اور اپنے عقیدے کو کبھی زبان پر نہ لاؤ۔ مگر میں شاید اتنی سمجھدار نہیں تھیی۔ یا شاید دل کی آواز زیادہ زور سے سنائی دیتی تھی۔
وہ دن میری زندگی کا نقطۂ آغاز بھی تھا اور اختتام بھی، جب میں نے ایک آرٹ ورک سوشل میڈیا پر شیئر کیا۔ جس میں ایک چھوٹے سے بچے کا جنازہ تھا، مسلمان تھا وہ، مگر میرے لیے صرف ایک بچہ تھا۔ معصوم، بے قصور، بے آواز۔ میں نے اس کے چہرے پر روشنی بنائی، سفید چادر میں لپیٹا، اور نیچے لکھا تھا کہ “دکھ صرف انسانیت کا ہونا چاہیے، مذہب کا نہیں‘‘ اس کے ساتھ میں نے کیپشن میں اقلیتوں کے ہونے والے مظالم کا بھی زکر کیا تھا۔ ‘‘ میں نے سوچا تھا شاید یہ جملہ کسی کے دل کو چھو لے گا، اور وہ کیپشن کے جملے شاید میری اس مثبت پوسٹ کے ساتھ دوسروں کو ہمارا دکھ سمجھنے میں مدد دیں گے۔ لیکن میرے وہ جملے دل چھونے سے پہلے لوگوں کے دماغ کے اس حصے کو چھو گئے، جہاں صرف غصہ اور اقلیت کے لیے نفرت بھری پڑی تھی۔ جسے صرف ایک موقع چاہیے تھا۔ مجھے “کافر”، “غدار”، “مغرب زدہ”، “مسیحی فتنہ” کہا گیا۔ صرف الفاظ نہیں، میری زندگی کو نوچ لینے والے خنجر تھے۔
پہلے سوشل میڈیا پر غلیظ کمنٹس آئے، پھر میسجز میں دھمکیاں۔ اور جس اسکول میں آرٹ سیکھاتی تھی۔ وہاں کی کچھ سہیلیوں نے بھی مجھ سے منہ موڑ لیا۔ اور بجائے مجھے سمجھنے کے وہ چند لڑکیاں بھی میرے خلاف ہو گئی تھیں۔ کسی نے میرا پتہ لیک کر دیا، اسکول کا نام کسی نے کامنٹس میں لکھ دیا، میری ماں کی تصویریں، اور یہاں تک کے میرا نمبر بھی۔ آج تک اس اکاونٹ کا پتہ تو نہیں چلا سکی۔ ،گر اتنا یقین ہوگیا ہے۔ کہ اتنی معلومات فراہم کرنے والا وہ اکاونٹ کوئی اور نہیں کوئی بہت قریبی جاننے والا ہی ہے۔ سوشل میڈیا تک تو چیزیں برداشت کیں۔ اور سم بھی توڑ کر پھینک دی۔ بلاک کروا دی۔ مگر اس سارے ہنگامے کے دورام ایک دن کسی نے دروازے کے نیچے ایک رقعہ پھینکا، جس میں لکھا تھا کہ “اگر جینا ہے تو چپ رہ، ورنہ کفن تیار رکھ۔” میری ماں، جو پہلے ہی زندگی کی تلخیوں سے ٹوٹی ہوئی تھیں، بس خاموش ہو کر مجھے دیکھتی رہیں۔ میں نے آنکھوں میں ان کا وہی خوف دیکھا جو برسوں پہلے پاپا کے جنازے پر تھا۔ بے آواز، مگر چیختا ہوا خوف۔
میں نے اسکول جانا چھوڑ دیا۔ پرنسپل نے خود فون کیا اور نرمی سے کہا، “کچھ دن آرام کرو، سارہ، تمہاری حفاظت ہماری ذمے داری سے باہر ہے۔” میری حفاظت، مجھے لگا جیسے میں کوئی جرم ہوں جسے چھپانا پڑے۔ ان کا آرام کرنے کا مطلب یہ تھا کہ میں سکول چھوڑ دوں۔ میں نے ملک چھوڑنے کا سوچا۔ دبئی، سری لنکا، کہیں بھی، جہاں میری شناخت میرے گلے کا پھندا نہ بنے۔ لیکن پیسے نہیں تھے، ویزا نہیں ملا، اور سب سے بڑھ کر، میں ماں کو تنہا نہیں چھوڑ سکتی تھی۔
اس لیے میں نے اپنا شہر چھوڑ کر کسی او شہر میں پناہ لینے کا سوچا۔ ایک پرانے جاننے والے کی مدد سے ایک تنگ سا فلیٹ مل گیا۔ میں نے موبائل بند کر دیا، سوشل میڈیا اکاؤنٹس ڈیلیٹ کر دیے۔ میں نے خود کو دنیا سے کاٹ لیا۔ کیونکہ جب میں نے پاکستانی اقلیتوں کے ساتھ کسی بھی بات پر ہونے والے سلوک کے بارے میں سوچا تو میں واقعی خوف زدہ ہو گئی تھی۔ مجھے کمرے کی کھڑکیوں سے بھی خوف آنے لگا تھا۔ جس پر کئیں مہینوں تک پردے گرے رہتے تھے۔ اپنا شہر چھوڑ چکی تھی۔ وہ محلہ چھوڑ دیا تھا۔ جہاں جوانی گزاری تھی۔ خود کو سمجھاتی تھی کہ یہ دنیا میرے لیے شاید نہیں بنی۔ گھر میں قید ہو گئی تھی۔ جیسے کوئی اپنے زخم پر ملہم لگانے کے بجائے خود کو دفن کر دے۔ جب شہر چھوڑا، کئیں دنوں تک کسی سے بات نہیں کی، کھانا نہیں کھایا، سوئی نہیں۔ خود سے سوال کرتی رہتی تھی “کیا میں نے واقعی کچھ غلط کیا؟ کیا سچ کہنا جرم ہے؟ یا صرف میرا ہونا ہی کافی ہے مجرم ٹھہرنے کے لیے؟‘‘
برسوں گزر جانے کے بعد ایک دن پھر سے وہی تکلیف بہت شدت سے محسوس ہوئی۔ جب جڑانوالہ واقع کے بارے میں سنا۔ اس دن خود سے سوال کیا کہ “کیا میں واقعی ہار گئی ہوں؟” میں نے کینوس نکالا۔ ہاتھ کانپ رہے تھے، دل دھڑک رہا تھا جیسے میں کسی جرم کا ارادہ کر رہی ہوں۔ میں نے صرف ایک لفظ لکھا: “زندہ۔” اور پھر نیچے، “میں اب بھی زندہ ہوں۔” وہ پہلا لمحہ تھا جب میں نے سوچا کہ زندہ رہنا ضروری ہے۔ اپنے اور اپنوں کے لیے، اور یہی میری سب سے بڑی فتح ہے۔
سارہ کہتی ہیں کہ آج وہ کسی بڑے پلیٹ فارم پر نہیں ہیں۔ نہ ہی کوئی تقریر کرتی کرتی ہیں، اور نہ ہی کوئی انقلاب لانا چاہتی ہیں۔ کیونکہ یہ معاشرہ انقلابیوں کو برداشت نہیں کر سکتا۔ ’’میں صرف کچھ بچوں کو آرٹ سکھاتی ہوں، رنگوں سے بات کرنا سکھاتی ہوں، کیونکہ مجھے پتہ ہے کہ الفاظ اکثر ہار جاتے ہیں، مگر رنگ کبھی جھوٹ نہیں بولتے۔ میں نے سیکھا ہے کہ خاموشی صرف بچاؤ نہیں ہوتی، اکثر وہ سب سے خطرناک ہتھیار بن جاتی ہے۔ اگر میری آواز تمہیں ڈراتی ہے، تو شاید تمہارا یقین اتنا کمزور ہے کہ سچ برداشت نہیں کر سکتا۔‘‘
واضح رہے کہ پاکستان میں اقلیتوں کے حقوق کی پامالی ایک سنگین مسئلہ ہے جس پر بین الاقوامی ادارے اور انسانی حقوق کی تنظیمیں مسلسل تشویش کا اظہار کر رہی ہیں۔ اگرچہ حکومت نے بعض اقدامات کیے ہیں، لیکن عملی طور پر اقلیتوں کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکامی کا سامنا ہے۔ اس صورتحال میں ریاستی اداروں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے مؤثر اقدامات کریں اور امتیازی سلوک کے خاتمے کے لیے سنجیدہ کوششیں کریں۔
ہیومن رائٹس واچ کی 2024 کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حکومتِ پاکستان مذہب کی بے حرمتی کے قانون کی دفعات میں ترمیم یا انہیں منسوخ کرنے میں ناکام رہی ہے، جو مذہبی اقلیتوں کے خلاف تشدد کے ساتھ ساتھ من مانی گرفتاریوں اور مقدمہ سازی کا بہانہ فراہم کرتی ہیں۔
خواجہ سراوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی عائشہ مغل نے ڈی آر ایف سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ جب ٹرانس جینڈر پرسنز (پروٹیکشن آف رائٹس) ایکٹ کو عدالت میں چیلنج کیا گیا، تو میں، مہرب، اور شہزادی، ہم تینوں نے اس قانون کا آئینی اور قانونی بنیادوں پر دفاع کیا۔ مگر بدلے میں ہمیں سوشل میڈیا پر بدترین حملوں کا سامنا کرنا پڑا۔
عائشہ کے مطابق، معروف شخصیات جیسے اوریا مقبول جان، ماریا بی، اور یوتھ کلب جیسے گروپس نے نہ صرف ان تینوں کو نشانہ بنایا بلکہ ان کے نام، تصاویر اور شناخت کو استعمال کر کے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے لیے ویوز اور فالوورز حاصل کیے۔
عائشہ کا کہنا تھا کہ انہوں نے ہمیں اس لیے چُنا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ ہم معاشرے میں کمزور ہیں، اور آسان ہدف ہیں۔ انہوں نے ہماری ذاتی معلومات پبلک کیں، جھوٹ اور مس انفارمیشن پھیلائی، اور ہمیں جان بوجھ کر خطرے میں ڈالا۔ یہ صرف نفرت کا معاملہ نہیں تھا۔ یہ مفاد کا کھیل تھا۔ عائشہ مزید بتاتی ہیں کہ انہیں آن لائن ٹرولنگ اور ذہنی دباؤ کی شدت کی وجہ سے ملک سے باہر جانا پڑا تاکہ وہ کچھ ذہنی سکون حاصل کر سکیں۔
’’بدقسمتی سے پاکستان میں خواجہ سرا افراد کے تحفظ کے لیے کوئی مؤثر ڈیجیٹل قوانین موجود نہیں۔ اور جو قوانین یا ادارے موجود بھی ہیں، وہ جب خواجہ سرا کی بات آتی ہے تو تقریباً مفلوج ہو جاتے ہیں۔‘‘
میڈیا رپورٹس کے مطابق خیبر پختونخواہ میں 2015 سے 2023 کے درمیان 267 تشدد کے واقعات رپورٹ ہوئے، جن میں سے صرف ایک کیس میں سزا ہوئی۔
یاد رہے کہ لاہور ہائی کورٹ نے 2021 میں حکومت کو 2018 ٹرانس جینڈر پرسنز (تحفظ حقوق) ایکٹ کے مکمل نفاذ کی ہدایت کی تھی، لیکن عملی طور پر اس پر عمل درآمد میں کمی ہے۔
عائشہ کہتی ہیں کہ نیشنل کمیشن فار ہیومن رائٹس کے پاس سوموٹو لینے کا اختیار ہے۔ مگر جب ہم پر بدترین ٹرولنگ ہر رہی تھی۔ سوموٹو نہیں لیا گیا۔ اور ابھی بھی انہوں نے خواجہ سرا کمیونٹی کے خلاف جاری منظم نفرت انگیز مہمات پر کوئی مؤثر ایکشن نہیں لیا۔
عائشہ کا کہنا ہے کہ ہمیں صرف قانونی تحفظ نہیں، بلکہ سماجی شعور میں تبدیلی کی بھی اشد ضرورت ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ آگاہی پروگرامز اور ٹریننگز کا دائرہ وسیع کرے، تاکہ ہمیں بھی ایک مکمل انسان تسلیم کیا جائے۔ صنفی تفریق ختم کرنا صرف قانون کا کام نہیں۔ یہ معاشرے کی اجتماعی ذمہ داری ہے۔
انہوں نے اسلام آباد میں حال ہی میں قتل ہونے والی ثنا یوسف کا حوالہ دیتے ہوئے کہا آئی جی کی جانب سے اس واقعے پر ایک اہم بات کی کہ ہمارے معاشرے کو اپنی بیٹیوں، بہنوں، اور خواتین انفلوئینسرز کو سپورٹ کرنا چاہیے۔ یہ جو ہر بات پر ‘بے حیائی’ کا لیبل لگا دیا جاتا ہے، یہی وہ سوچ ہے جو انسانیت کے قتل کی بنیاد بن رہی ہے۔ ہر فرد نے بے حیائی کی اپنی تعریف بنا رکھی ہے، اور جب تک ہم یہ سوچ نہیں بدلیں گے، تب تک تبدیلی ممکن نہیں۔
اقلیتوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے صوفی چوہان کا کہنا تھا کہ اقلیتوں کے لیے پاکستان میں آن لائن موجودگی کسی آزادی سے زیادہ ایک خوف کا نام بن چکی ہے۔ جیسے ہی کوئی اقلیتی فرد سوشل میڈیا پر اپنی رائے دیتا ہے، اس پر کفر، غداری یا گستاخی کے الزامات لگا دیے جاتے ہیں۔ مذہبی شناخت کو نشانہ بنا کر ان کی ذاتی معلومات لیک کرنا، کردار کشی کرنا، اور ہراسانی کی مہمات چلانا معمول بنتا جا رہا ہے۔ نتیجتاً، بہت سے لوگ خاموشی یا خود ساختہ جلاوطنی اختیار کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔
حقوقِ انسانی کے کارکنان کا کہنا ہے کہ موجودہ قوانین اقلیتوں کو سائبر حملوں سے بچانے میں ناکام نظر آتے ہیں۔ سائبر کرائم سے متعلق اداروں کی جانب سے کارروائی سست یا غیر مؤثر ہوتی ہے، خاص طور پر جب متاثرہ فرد اقلیتی برادری سے ہو۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ اقلیتوں کے لیے ڈیجیٹل تحفظ کو ایک سنجیدہ مسئلہ سمجھے، مؤثر قانون سازی کرے، اور نفرت انگیزی پھیلانے والوں کے خلاف فوری اور شفاف کارروائی کو یقینی بنائے۔
ڈیجیٹل رائٹس فاونڈیشن کی سائبر ہراسمنٹ ہیلپ لائن کی 2022 کی رپورٹ کے مطابق خواجہ سرا کمیونٹی کے خلاف منظم آن لائن نفرت انگیز مہمات دیکھی گئیں۔ تقریباً 1% شکایات خواجہ سراؤں کی طرف سے تھیں، جو شناخت پر مبنی حملوں کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔ یہ حملے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر منظم تھے، لیکن پلیٹ فارمز کی طرف سے ردعمل کی کمی یا ناکافی پالیسیز کے باعث مسائل کو حل کرنے میں مشکلات پیش آئیں۔ مگر ہیلپ لائن کی جانب سے سوشل میڈیا کمپنیوں کے ساتھ رابطہ کر کے پاکستان کے تناظر اور اس سے ہونے والے نقصانات کی وضحات کی کوشش کی گئی۔
ڈیجیٹل رائٹس فاونڈیشن نے اقلیتی برادریوں کے خلاف آن لائن نفرت انگیز تقریر اور غلط معلومات کے پھیلاؤ کے خلاف بھی ہمیشہ آواز اٹھائی ہے۔ اس نے قومی کمیشن برائے انسانی حقوق کے ساتھ مل کر آن لائن غلط معلومات کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے اقدامات بھی تجویز کیے ہیں۔
پاکستان میں ڈیجیٹل رائٹس فاونڈیشن جیسے کئیں ادارے اقلیتوں، خواتین اور خواجہ سراوں کے تحفظ اور حقوق کے لیے کام کر رہے ہیں۔ لیکن جب تک حکومت ان کو مکمل تحفظ نہیں فراہم کر سکے گی۔ قوانین کو لاگو نہیں کروا سکے گی۔ اس وقت تک اس طرح کے واقعات کو روکنا مشکل ہی نہیں۔ بلکہ ناممکن ہے۔ کیونکہ مزید قانونی اور سماجی اقدامات کی ضرورت ہے۔

