Online Harassment and Gendered Disinformation Faced by Women Journalists in Tribal Districts By Nazia Salarzai
May 14, 2025Digital Platforms, Environmental Journalism, and Censorship: Is Access to Truth Becoming Limited? By Samina Chaudhry
May 14, 2025تحقیقاتی صحافت کو ڈیجیٹل نگرانی، سپائی ویئر اور دھمکیوں سے خیبر پختونخوا اور قبائلی اضلاع کی صحافیوں کو خطرات لاحق ہے۔ آئے روز صحافیوں کو اغوا، قتل، ٹارچر اور ڈرایا دھمکایا جاتا ہے جو کہ تحقیقاتی صحافت اور آزادی اظہار رائے پر ایک وار ہے۔ تحقیقاتی صحافت ہی ہے جو مسائل کی جڑ تک پہنچ کر اس کا حل نکالنے کی کوشش کرتی ہے۔ جب بھی کسی تحقیقاتی صحافی کو اغوا کر لیا جاتا ہے تو رہائی کے بعد وہ اس طرح اپنا کام جاری نہیں رکھ سکتا جس طرح وہ پہلے کیا کرتا تھا یا کرتی تھی۔ پورے پاکستان بالخصوص قبائلی اضلاع اور خیبر پختونخوا میں ایک تحقیقاتی صحافی کا کام کرنا انتہائی دشوار کام ہے۔
تحقیقاتی/انویسٹیگیٹیو جرنلسٹ عمر چیمہ نے بتایا کہ ”جب بھی ہم تحقیقاتی صحافت کرتے ہیں تو ہمیں مختلف قسم کے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس تحقیقاتی صحافت کی وجہ سے میرا ذاتی نمبر کسی نے شیئر کر دیا تھا جس کی وجہ سے مجھے مختلف قسم کی کالز آتی تھی لیکن میں کسی کو بھی ریسیؤ نہیں کرتا تھا۔ میرے صحافت کی وجہ سے مجھے پہلے سے دھمکی نہیں دی گئی تھی بلکہ مجھے سیدھا اغوا کر لیا گیا تھا۔ تحقیقاتی صحافت کرنا کوئی آسان کام نہیں اس کے لیے ہمیشہ آپ کو قربانی دینی پڑتی ہے۔
قبائلی ضلع خیبر سے تعلق رکھنے والے تحقیقاتی صحافی اسلام گل آفریدی صحافت کے شعبے سے 2006 سے وابستہ ہے۔ انہوں نے بتایا کہ “خیبر پختونخوا بالخصوص قبائلی اضلاع میں تفتیشی صحافت کرنا آسان کام نہیں کیونکہ یہ قبائلی اضلاع جنگ سے متاثر ہوئے ہیں اور اب بھی بد امنی کا شکار ہیں جس کی وجہ سے ایک تحقیقاتی صحافی کا ایسے علاقے میں کام کرنا نا ممکن سا ہے۔ 2018 میں میں نے لینڈ اینڈ مائنز کے حوالے سے ایک سٹوری کی تھی جس کی وجہ سے مجھے سرکار کی طرف سے اٹھا لیا گیا تھا اور مجھ پر پاکستان کے خلاف غیر ملکیوں کا ساتھی ہونے کا الزام لگایا گیا تھا مگر کوئی بھی ثبوت پیش نہ ہونے کی وجہ سے میں بے گناہ ثابت ہوا اور رہا ہوا۔ انہوں نے پاکستان میں صحافت آزاد نہیں ہے کیونکہ جب بھی ہم تحقیقاتی صحافت کرتے ہیں تو سرکاری ادارے ہمارا ساتھ نہیں دیتے اور نہ ہی ہماری رپورٹ شائع کرنے دیتے ہیں، ہمیں مختلف طریقوں سے پریشرائز کرتے ہیں مگر پھر بھی میری کوشش ہوتی ہے کہ میں مسائل کو اجاگر کروں کیونکہ مسائل کو اجاگر کرنے کی اشد ضرورت ہے اور ایک اچھے صحافی کا کام ہی یہی ہے کہ وہ تحقیقاتی صحافت کے ذریعے ہی مختلف مسائل کو اجاگر کریں“
پی ٹی وی نیوزاینکر ماہ نور قریشی نے بتایا کہ “میں سٹیٹ میڈیا کے ساتھ منسلک ہوں جس کی وجہ سے دھمکیاں ملنا تو عام سی بات ہے مگر ان حالات کے ہم لوگ اتنے عادی ہو چکے ہیں کہ کوئی دھمکی دیں یا کوئی پریشرائز کریں تو ہمیں کوئ فرق نہیں پڑتا کیونکہ یہ تو اب روز کا معمول بن چکا ہے۔ لیکن ایک وقت ایسا بھی آتا ہے کہ ہم انصاف کے لیے اور اپنے آپ کے لیے آواز اٹھاتے ہیں مگر اس کا کوئی حل نظر نہیں آ رہا ہوتا۔ کئی بار تو میرا ڈیٹا بھی چوری ہونے کی کوشش کی گئی ہے جس کا مجھے میسج بھی آ جاتا ہے لیکن ڈیجیٹل ڈیٹا چوری ہونے کے حوالے سے مجھے اتنی سمجھ ہے کہ کوئی میرا ڈیٹا آسانی سے ہیک نہیں کر سکتا“
قبائلی ضلع خیبر سے تعلق رکھنے والی صحافی جمائمہ آفریدی نے بتایا کہ “مجھے میرے کام کی وجہ سے آئے روز دھمکیاں ملتی ہیں اور پریشرائز بھی کیا جاتا ہے۔ مجھے یہ تک کہا گیا ہے کہ اگر میں آپ کا والد یا بھائی ہوتا تو میں آپ کو کب کا مار چکا ہوتا مجھے یہ بھی دھمکی ملی ہے کے آپ جیسی لڑکی کو تو مار دینا چاہیے آپ کو زندہ رہنے کا کوئی حق نہیں ہے کیونکہ آپ جیسی لڑکی معاشرے کی اور خواتین کو بگاڑتی ہے۔ پہلے تو میں جواب دیتی تھی اور پریشان بھی ہو جاتی تھی مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اب میں ان سب کی عادی ہو چکی ہوں اور اب مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا کون کیا بول رہا ہے مجھے بس اپنے کام سے کام رہتا ہے۔
قبائلی ضلع مہمند سے تعلق رکھنے والی صحافی سلمی نے بتایا کہ ایک خاتون صحافی ہوتے ہوئے ہمیں شروع ہی سے دھمکیاں ملتی رہتی ہیں۔ کچھ سال پہلے جب مری میں برف کا طوفان آیا تھا تو میں نے ایک ادارے کے لیے لائیو رپورٹ بنایا تھا اور اس میں نے سر پر دوپٹہ بھی لیا ہوا تھا مگر لوگوں کی طرف سے یہی دھمکیاں مل رہی تھی کہ آپ کو تو مار دینا چاہیے یہ عذاب ہے اور یہ عذاب تو آپ جیسی خواتین کی وجہ سے آتا ہے۔ ان سب کی وجہ سے میں بہت زیادہ دل برداشتہ ہو گئی تھی مگر پھر ادارے والوں نے مجھے سمجھایا کہ آپ پریشان نہ ہو آپ تو ایک صحافی ہو اور بطور صحافی آپ کو ان سب کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے مگر آپ اپنا کام جاری رکھیں“
ایک قبائلی خاتون صحافی نے نام نہ بتانے کی شرط پر بتایا کہ “میں خواتین کے مسائل کے اوپر لکھتی ہوں مختلف ویب سائٹس پر میرا کام شائع تو ہو جاتا ہے مگر مجھے طرح طرح کی دھمکیاں ملتی ہے کہ آپ ہماری خواتین کے مسائل کے بارے میں کیوں لکھتی ہے۔ اب میری کوشش یہ رہتی ہے کہ خواتین کے مسائل پر لکھوں لیکن کھل کر نہیں کیونکہ کھل کر لکھنے سے مجھے کئ دھمکیاں مل چکی ہیں۔ میرے علاقے میں بہت زیادہ مسائل ہیں میں چاہتی ہوں کہ اس کو رپورٹ کروں لیکن دھمکیوں، خوف اور ڈر کی وجہ سے میں کھل کر رپورٹنگ نہیں کر سکتی۔ مجھے تو دھمکیوں سے ڈر نہیں لگتا لیکن میں اپنی فیملی کی وجہ سے خاموش ہو جاتی ہوں کیونکہ میرے ساتھ میرے گھر کے تمام افراد منسلک ہیں۔ مجھے تو کئی بار کہا گیا ہے کہ آپ اپنے دھمکیوں کے حوالے سے آواز اٹھائیں، اپنی شکایات درج کروائیں لیکن میں نے آج تک کوئی بھی شکایت درج نہیں کروائی کیونکہ اگر میں ایسا کرتی ہوں تو مجھے مزید دھمکیاں ملیں گی اور مزید میرے کام کو روکنے کی کوشش کی جائے گی۔ میڈیا میں میرے کئی صحافی دوست ہیں جن کو انصاف نہیں ملا تو مجھے کیا ملے گا“
وی نیوز کے سب ایڈیٹر احسن اعوان نے بتایا کہ “صحافیوں کے کام کے شائع کرنے کے حوالے سے ہمیں اکثر پریشرائز کیا جاتا ہے اور دھمکیاں بھی ملتی ہے جس کی وجہ سے ہمیں شائع شدہ مواد ویب سائٹ سے ڈیلیٹ کرنا پڑتا ہے اور ماضی میں ایسا کئی بار ہو چکا ہے“
ہم نیوز اسلام اباد کی رپورٹر صبا بجیر نے بڑے افسردگی سے بتایا کہ “صحافت کے 13 سالہ کیریئر میں مجھے بہت زیادہ دکھ اور دھمکیاں ملی ہے۔ میں نے اپنے صحافت کا آغاز کراچی سے کیا اور اس وقت میں نیوز ان کرتی جس کی وجہ سے لائیو پروگرام میں مجھے ایک سیاسی پارٹی کی جانب سے بہت زیادہ تنگ کیا جاتا تھا۔ بلکہ آئے روز ریسپشن پر کال آتی تھی کہ صبا کو بتائیں کہ اس موضوع پر بات نہ کریں۔ مگر مجھے اپنے ادارے کے ہیڈ کی سپورٹ حاصل تھی جس کی وجہ سے میں نے اپنی رپورٹنگ جاری رکھی لیکن اس کے علاوہ پھر بھی وہی کال آتی رہی کہ آج تو یہ بچ گئی لیکن کل یہ زندہ نہیں بچ پائے گی۔ کئی مرتبہ میری گاڑی کو بھی ٹارگٹ کیا گیا۔ پھر میں اسلام اباد شفٹ ہوئی لیکن اسلام اباد میں بھی میرے ساتھ بہت زیادتی ہوئی، سپریم کورٹ میں ایک سیاسی پارٹی کا کیس چل رہا تھا اور اس کیس میں مجھ پر تشدد بھی ہوا اور مجھے پمز ہسپتال میں بند کیا گیا۔ پاکستان میں صحافت آزاد نہیں ہے اور نہ ہی اظہار رائے کی صحیح معنوں میں آزادی ہے، آئے روز صحافیوں کو اغوا کیا جاتا ہے اور رہائی کے بعد وہ اس طرح نہیں بول پاتے جس طرح وہ پہلے بول پاتے تھے“
ایڈوکیٹ پشاور ہائی کورٹ مہوش محب کاکا خیل نے صحافیوں کو لاحق خطرات، دھمکیوں، ڈیٹا ہیکنگ اغوا اور مختلف مسائل کے حوالے سے بتایا کہ “صحافیوں کو انتہائی خطرات لاحق ہے کیونکہ جو بھی حقیقت لکھتا یا لکھتی ہے تو ان کو دھمکیاں ملنا شروع ہو جاتی ہیں۔ ہمیں زیادہ ترخواتین صحافیوں کے کیسز رپورٹ ہوتے ہیں مگر آخر میں اپنی خاندان کے سیفٹی کے حوالے سے وہ کیسز واپس لے لیتی ہے۔ میرے پاس زیادہ ترافغان صحافیوں کے کیسز رپورٹ ہوتے ہیں ۔ کیونکہ وہ رہتے تو پاکستان میں ہیں مگر رپورٹنگ افغانستان کے مسائل پر کر رہیں ہوتے ہیں تو ان کو اس بات کا بہت زیادہ خوف ہے کہ وہ افغانستان جا کر ہمارے جان کو خطرہ ہوسکتا ہے کیونکہ ان کو بہت پہلے دھمکیاں مل چکی ہے۔ پیکا PECA ایکٹ صحافیوں کے مسائل کو ڈیل کرتا ہے اگر صحیح سے کام کرے تو۔
جب ایک صحافی کسی سیاستدان کے خلاف لکھتا ہے تو پھر وہ defamation کیس بن جاتا ہے جسے پاکستان پینل کورٹ کے سیکشن 499 اور 500 ڈیل کرتا ہے۔ اس کے علاوہ PECA کا ایک سیکشن 20 اس کو ڈیل کرتا ہے۔ اس کے علاوہ آئین کے آرٹیکل 19 میں صحافیوں کا اظہار رائے کی ازادی حاصل ہے۔ 2021 میں ایک سیکشن آف جرنلسٹ اینڈ میڈیا پروفیشنلزایک صحافیوں کو فریڈم مہیا کرتا ہے۔ پاکستان پینل کورٹ سیکشن 324 کے انڈر ایک ٹیمس ٹو مرڈر کے تحت ایک صحافی ایف آئی آر FIR درج کر سکتا ہے۔ اور اگر ایک صحافی اغوا ہوتا ہے تو سیکشن 35 کے تحت 10 سال قید ہو سکتا ہے۔ اس کے علاوہ تنگ ہونے کے لیے سیکشن 377 کے تحت مختلف سزائیں ہے۔ سیکشن اینٹی ٹیررزم ایکٹ 1997 کے سیکشن 7 اور 11 ہے۔ جس میں سیکشن 7 ٹیر رزم کے متعلق ہے یعنی کسی صحافی پر حملہ ہونا وغیرہ۔ سیکشن ،302 قتل کے متعلق ہے جس پر سیکشن 324 لاگو ہوتا ہے۔ اگر کسی صحافی کا ڈیٹا ہیک ہوتا ہے تو پیکا PECA ایکٹ سیکشن 19 اس کو ڈیل کرتا ہے کہ فلانے بندے نے فلانے صحافی کا ڈیٹا ہیک کیا ہے اس کا تعاقب کیا ہے۔ جس میں سیکشن 17 سائبر سٹاکنگ کے تحت ڈیل کیا جاتا ہے۔ جبکہ سیکشن 24 صحافیوں کے ڈرانے اور دھمکانے کو ڈیل کرتا ہے“
جیو نیوز کے سینئر صحافی اعزاز سید نے بتایا کہ “آج کل صحافیوں کے ڈیجیٹل آلات بالکل بھی محفوظ نہیں ہیں۔ آئے روز صحافیوں کے موبائل فونز اور دیگر ڈیجیٹل آلات کو ہیک کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے ان کی پرائیویسی لیک ہو جاتی ہے۔ ان تحقیقاتی صحافیوں کے ڈیجیٹر حالات کو ہیک کرنے کے لیے سپائی ویئرز کا استعمال کیا جا رہا ہے کیونکہ سپائی ویئر صحافیوں کے ذرائع کو جان لیتا ہے مثال کے طور پر ایک صحافی کس کس سے فون پر بات کرتا ہے یا کن کن لوگوں کے ایک صحافی سے رابطے ہیں جو کہ آج کل ایک بہت بڑا مسئلہ بن چکا ہے۔ صحافیوں کو چاہیے کہ وہ مختلف گروپس میں بھیجے گئے معلوم ویب سائٹس کے لنکس نہ کھولے کیونکہ اس طرح کرنے سے اکثر صحافیوں کا ڈیٹا ہیک ہو جاتا ہے۔ صحافیوں کو اس حوالے سے ٹریننگز دینی چاہیے کہ جب بھی آپ کو کوئی مشکوک لنکس موصول ہو تو ان کو نہ کھولے کیونکہ اکثر صحافیوں کو اس بارے میں پتہ ہی نہیں ہوتا اور وہ جلدی میں ہوتے ہیں جس کی وجہ سے وہ لنکس کھول لیتے ہیں تو ان کا سارا ڈیٹا ہیک ہو جاتا ہے اور وہی ڈیٹا پھر ان کے خلاف بڑے آسانی سے استعمال ہوتا ہے“
ڈاکیومینٹری فلم میکر ثمرمن اللہ نے بتایا کہ “تحقیقاتی صحافت چاہے مرد کر رہے ہو یا خواتین دونوں کے لیے مشکل کام ہے۔ آئے روز تحقیقاتی صحافیوں کو ہم لوگوں نے مشکل میں اور گرفتار ہوتے دیکھا ہے۔ اب وقت ہے کہ ان کے لیے آواز اٹھائی جائے بلکہ ایسے اقدامات کیے جائیں کہ تحقیقاتی صحافیوں کی جان کو کوئی خطرہ نہ ہو اور وہ پرامن طریقے سے اپنی صحافت جاری رکھ سکیں“

