‘The Intersection of Populism, Racism, and Misogyny’ by Zainab Dar
June 19, 2025‘Due to Online Hate Speech, Women’s Participation in Khyber Pakhtunkhwa Politics Remains Extremely Low’ by Amina Salarzai
June 19, 2025خیبر پختونخوا کی خواتین مارننگ شوز ہوسٹس کے بارے میں آنلائن ہیٹ سپیچ ایک سنجیدہ مسئلہ ہے کیونکہ کسی بھی پختون معاشرے میں ایک خاتون کا سوشل میڈیا پر آنا اور پھر میزبانی کرنا انتہائی برا اور پختون روایات کے خلاف سمجھا جاتا ہے۔ اور اس کی وجہ سے ان کو ہیٹ سپیچ کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس سے ان کی ذہنی صحت اور کیریئر متاثر ہوسکتی ہے۔ خیبر پختونخوا میں اکثر ان کو ډمہ کہا جاتا ہے، ډمہ پشتو کا لفظ ہے جو اکثر پختون لوگ ایک اداکارہ کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ جب بھی مارننگ شو ہوسٹس کوئی اچھا کام کرتی ہے تو لوگوں کا یہ نظریہ ہوتا ہے کہ یہ اچھائی صرف اور صرف ریٹنگ کے لیے کر رہی ہے حالانکہ ضروری نہیں کہ وہ ریٹنگ کے لیے یہ سب کر رہی ہو۔
مارننگ شوز پورا ہفتہ جاری رہتے ہیں جو اکثر لائیو دکھائے جاتے ہیں اوران ہوسٹس کے بارے میں باڈی شیمنگ، صنف، کردار اور خواتین کو گمراہ کرنے کے حوالے سے ہیٹ سپیچ لائیو ہی کی جاتی ہے. سب سے زیادہ ان کو بالوں کی وجہ سے نشانہ بنایا جاتا ہے ان کو کہا جاتا ہے کہ ”ارے او گنجی آپ کے تو بال ہے ہی نہیں ہر وقت وگ لگائی رہتی ہو۔
ارے آپ کتنی باتونی ہو۔
ارے یہ سب تو ریٹنگ کے لیے ہو رہا ہے۔
ارے آپ تو طلاق یافتہ ہو اپنا تو گھر سنبھال نہیں سکتی ہماری خواتین کو کیوں گمراہ کر رہی ہو؟
اپنی شکل تو دیکھو ذرا اس میں تو بالکل بھی نور نہیں ہے۔ آپ تو بلکل دلہن لگ رہی ہو اتنا زیادہ میک اپ اور ہیوی ڈریس پہنا ہے۔
آپ تو اکیلے رہتی ہو آپ کا تو کردار ٹھیک نہیں ہے“
روزانہ کی بنیاد پر ہراساں ہونے کے ساتھ ساتھ ان کی پرائیویسی لیک کرنے کی بھی کوشش کی جاتی ہے کیونکہ عوام ان کو پبلک پراپرٹی سمجھتے ہیں کیونکہ اکثر عوام کے مطابق اگر ایک خاتون میڈیا پرآتی ہے تو اس کا نہ تو کردار ہے اور نہ ہی کوئی پرسنل لائف۔
صوابی سے تعلق رکھنے والی شازمہ حلیم جو 36 سال سے میڈیا اور انٹرٹینمنٹ کے شعبے سے وابستہ ہے۔ 1986 میں انہوں نے ریڈیو پاکستان اور پاکستان ٹیلی ویژن (پی ٹی وی) سینٹر سے اپنے کیریئر کا آغاز کیا۔ اس کے علاوہ جیو اور اے ار وائی میں بطور اداکارہ ڈراموں میں بھی کام کیا ہے۔ انہوں نے خیبر ٹی وی میں تیرہ سال بطور مارننگ شو ہوسٹ کام کیا ہے۔ حالیہ وقت میں شازمہ پی ٹی وی سینٹر کے ساتھ لائیو شو ہوسٹ کرتی ہے۔
انہوں نے اپنے چھتیس سالہ تجربے کی بنیاد پر خواتین مارننگ شوز ہوسٹس کے بارے میں ہیٹ سپیچ کا موازنہ کیا۔ انہوں نے بتایا کہ “آج سے بیس یا پچیس سال پہلے مارننگ شوز ہوسٹ کرنے یا لائیو پروگرام کے بارے میں آج کی طرح ہیٹ سپیچ اتنی زیادہ نہیں کی جاتی تھی کیونکہ اس وقت انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا اتنا عام نہیں تھا، اور نہ ہی اتنی زیادہ خواتین مارننگ شوز ہوسٹ کرتی تھی۔ اس وقت فنکار اور ہوسٹس کی قدر کی جاتی تھی۔ اس وقت لائیو پروگرام ہو یا مارننگ شو لوگ اپنے خط کے زریعے یا پی ٹی سی ایل کال کے زریعے اپنے پیار اور راۓ کا اظہار کرتے تھے۔ اس دوران اگر کسی ہوسٹ کے منہ سے کوئی غلط بات نکل جاتی تھی تو ہر کوئی آسانی سے ریکارڈ نہیں کر سکتا تھا کیونکہ نہ تو ہر کسی کے ہاتھ میں موبائل ہوتا تھا اور نہ ہی اس کو وائرل کرنے کا اتنا طریقہ کار تھا۔ مگر آج کے دور میں سوشل میڈیا کے ترقی کے ساتھ ساتھ آنلائن ہیٹ سپیچ نے بھی خوب ترقی کی ہے جو ہم ہوسٹس کے ساتھ ساتھ کسی کے لیے بھی انتہائی خطرناک ہے“
سوشل میڈیا کے اس جدید دور میں جہاں آنلائن ہیٹ سپیچ ذیادہ ہے، اس کے بارے میں انہوں نے بتایا کہ ”آج کے دور میں جب میں ہوسٹنگ کرتی ہوں تو مجھے خوف رہتا ہے کہ آیا میرا دوپٹہ صحیح ہے یا نہیں، میرے منہ سے کوئی ایسی بات نکل نہ جائے کیونکہ آج کے دور میں لوگ ویڈیوز میں سے چھوٹے چھوٹے کلپس نکال کر وائرل کر دیتے ہیں جو ہمارے خلاف غلط طریقے سے استعمال کیے جا سکتے ہیں۔ مجھے بھی آنلائن ہیٹ سپیچ کا سامنا ہوا ہے جس نے مجھے ذہنی طور پر کافی پریشان کیا تھا جیسا کہ لائیو پروگرامز میں اکثر لوگ ملنے، کال پر باتیں کرنے اور یا کھانا کھانے کے لیے مدعو کرتے تھے۔ بلکہ مجھے تو اکثر لوگوں کی یہ دھمکی بھی ملتی تھی کہ آپ ہم سے ملے اگر آپ ہم سے نہیں ملتی تو ہم آپ کو اغوا کر لیں گے، آپ کو نقصان پہنچائیں گے، آپ کی گاڑی کو بم سے اڑا دینگے، آپ کے گھر کا ایڈریس ہم معلوم کر لیں گے وغیرہ وغیرہ۔ مگر میں اس معاملے میں اپنے آپ کو خوش قسمت سمجھتی ہوں کیونکہ میرے گھر والے مجھ پر اعتماد کرتے ہیں۔ لیکن میرا دل تب دکھتا ہے کہ اس فیلڈ میں آنے والی کم عمر لڑکیوں کو کتنی مشکلات ہونگی کیونکہ آج کے دور میں جب ایک خاتون میڈیا پر آتی ہے تو لوگ اس کو پبلک پراپرٹی سمجھتے ہیں ان کا یہ خیال ہوتا ہے کہ ان کی تو نہ کوئی پرائیویسی ہے اور نہ ہی کوئی پرسنل لائف۔
آنلائن ہیٹ سپیچ کو ختم کرنا تو بہت مشکل کام ہے کیونکہ آپ کس کس کے منہ کو بند کریں گے مگر کسی نہ کسی حد تک ہم اس پر قابو پا سکتے ہیں۔ اپنی محنت جاری رکھیں اور لوگوں کی باتوں پر توجہ نہ دیں کیونکہ اگر ہم اچھا کام کریں گے تب بھی یہ لوگ ہیٹ سپیچ کریں گے اور اگر برا کریں گے تو پھر تو کریں گے ہی کریں گے“
خیبر پختونخوا کے ضلع نوشہرہ سے تعلق رکھنے والی زکیہ خان نو سال سے مىڈیا کے شعبے سے وابسطہ ہے۔ انہوں نے پانچ سال مشرق ٹی وی میں کام کیا، مشرق ٹی وی پاکستان کا پہلا پشتو نیوز چینل تھا جو پشتو کی خبریں نشر کیا کرتا تھا اور اب بھی کر رہا ہے۔ حالیہ وقتوں میں وہ پاکستان ٹیلی ویژن سینٹر کے ساتھ انفوٹینمنٹ کے نام سے ایک پروگرام کر رہی ہے۔ اس کے علاوہ وہ سنو پروگرام 89.4 آ ئی ایس پی آر ریڈیو کے ساتھ چھ سال سے بطور ریڈیو براڈ کاسٹر کام کر رہی ہے۔ شازیہ دو مارننگ شوز کر رہی ہیں ایک کا نام ہے پختنونخوا ٹائم اور دوسرے کا نام ہے دہ کور خائیست جس کا مطلب ہے گھر کی خوبصورتی۔ مارننگ شوز ہوسٹنگ کی وجہ سے انہوں نے علاقائی زبان میں آنلائن ہیٹ سپیچ کے کچھ جملوں کے بارے میں بتایا کہ ”تا خو د زنانہ نوم وشرمولو“ یعنی آپ نے خواتین کا نام بدنام کیا ہے۔ “زړه مې غواړى چه ده ويختو نه دې ونيسم“ دل کرتا ہے کہ آپ کو بالوں سے پکڑ لوں۔ ”لوپټه دى په سر نشته ټول ويخته دى ښکاري“ آپ کے سر پر دوپٹہ نہیں ہے اور آپ کے سارے بال نظر آرہے ہیں۔
”ته خو خلق ګنهنګارى“ آپ تو لوگوں کو گنہنگار کر رہی ہو۔ ”اول خپل ځان ټهيک که بيا خبري کوه“ پہلے اپنے آپ کو ٹھیک کرو پھر باتیں کرو وغیرہ وغیرہ۔
آنلائن ہیٹ سپیچ کی وجہ سے ڈپریشن میں جانے کے حوالے سے زکیہ نے بتایا کہ ”آنلائن ہیٹ سپیچ کی وجہ سے میں تین ہفتے تک ڈپریشن میں چلی گئی تھی کیونکہ میں نے کچھ ایسے الفاظ سنے تھے جس کی وجہ سے میں انتہائی دلبرداشتہ ہو گئی تھی اور مزید کام کرنے کو دل نہیں کر رہا تھا۔ مگر پھر میں نے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر ہونے والے آنلائن ہیٹ سپیچ کو دیکھنا ہی چھوڑ دیا جس کی وجہ سے میں نے کسی حد تک اپنی ڈپریشن پر قابو پا لیا۔ کیونکہ ہمیں اپنی ہمت نہیں ہارنی چاہیے بلکہ مزید کام کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ ہماری پختون خواتین بہت ہی کم میڈیا پر آتی ہے“
خیبر پختونخوا کے ضلع لکی مروت سے تعلق رکھنے والی پریشے خان ہم پشتو ون سے “پخیر پختونخوا“ کے نام سے ایک مارننگ شو ہوسٹ کرتی ہے جس کا مطلب ہے خوش آمدید پختونخوا۔ آنلائن ہیٹ سپیچ کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ ”مجھے عوام کی طرف سے اتنا زیادہ ہیٹ سپیچ نہیں ملی مگر رشتہ داروں کی طرف سے مجھے انتہائی ہیٹ سپیچ کا سامنا ہوا ہے کیونکہ وہ میرے گھر والوں خاص کر بھائیوں کو بتاتے تھے کہ پریشے نے تو ہمارا نام بدنام کر دیا، یہ کیسی پختون ہے جو میڈیا پر آتی ہے، یہ تو نقاب کیۓ بغیر سکرین پر نظر آتی ہے، ہمیں لوگ ووٹ کیسے دیں گے وغیرہ وغیرہ“
انہوں نے بتایا کہ اٹھ سال تک میں ہیٹ سپیچ برداشت کرتی رہی مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اپنی محنت جاری رکھی اور ہیٹ سپیچ کو اپنے اوپر حاوی ہونے نہیں دیا کیونکہ ان کے گھر والوں کی سپورٹ انھیں حاصل تھی۔
قبائلی ضلع مہمند سے تعلق رکھنے والی ناہید جہانگیر جو 2006 سے میڈیا کے شعبے سے وابستہ ہے اور پشاور کے سرکاری ہسپتال لیڈی ریڈنگ میں اسسٹنٹ میڈیا مینیجر کے عہدے پر فائز ہے۔ انہوں نے ریڈیو پاکستان، پاکستان ٹیلی ویژن سینٹر، ٹرائبل نیوز نیٹ ورک سمیت مختلف میڈیا کے اداروں کے لیے کام کیا ہے۔ ناہید خیبر پختونخوا کی پہلی فیس بک لائیو نیوز اینکر ہے جنہوں نے مقامی زبان میں لائیو پروگرام کیا ہے۔ اپنے لائیو پروگرام کے مختلف آنلائن ہیٹ سپیچ کے بارے میں انہوں نے بتایا کہ ”اللہ آپ کے شوہر کو تباہ کرے کہ آپ کو پیسوں کے لیے میڈیا پر آنے کی اجازت دیتا ہے حالانکہ میں شادی شدہ نہیں ہوں۔ کیا آپ مجھ سے شادی کریں گی؟ آپ کتنی خوبصورت ہو میں آپ سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔ آپ کتنی گوری ہو، آپ کو میک اپ کی کیا ضرورت ہے جیسے الفاظ روز سننے کو ملتے تھے جس سے میں کافی دلبرداشتہ ہو جاتی تھی مگر میں اس کو اگنور کرتی تھی کیونکہ یا تو میں اپنا کام جاری رکھتی اور یا اسی آنلائن ہیٹ سپیچ کو لے کر گھر بیٹھ جاتی۔ مگر گلہ مجھے اپنے ہی فیلڈ کہ کچھ دوستوں سے ہیں کیونکہ وہ اسی آنلائن ہیٹ سپیچ سے سکرین شاٹس لے کر مجھے انباکس کرتے تھے اور کہتے تھے کہ یہ دیکھو آج پھر آپ کو آنلائن ہیٹ سپیچ کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ پھر میں نے سوچا کہ جب ہم سکرین پرآتے ہیں تو ہم پبلک فگرز بن جاتے ہیں اور پبلک فگرز کے بارے میں اچھی باتیں بھی بولی جاتی ہے اور بری بھی اور اس بات نے مجھے مزید کام کرنے کے لیے حوصلہ دیا“
پشاور سے تعلق رکھنے والی کلینیکل سائیکالوجسٹ حافظہ زمر ملک نے آنلائن ہیٹ سپیچ کے بارے میں بتایا کہ یہ آج کل ایک خطرناک حد تک ہر خاص و عام کو متاثر کرتا ہے، اور یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ ہیٹ سپیچ کسی کے بارے میں ہو اور یہ اس کے ذہن پر منفی اثر نہ چھوڑیں۔ آنلائن ہیٹ سپچ کے ذہن پرمنفی اثرات کے بارے میں انہوں نے بتایا کہ ”جب بھی کسی بندے کے بارے میں آنلائن ہیٹ سپیچ کی جاتی ہے بالخصوص خواتین مارننگ شوز ہوسٹس کے بارے میں تو وہ پیپل پلیزر یعنی لوگوں کو خوش کرنے والے بن جاتے ہیں کیونکہ ان کے ذہن میں ہمیشہ یہ سوال رہتا ہے کہ آیا کیا ہم کچھ غلط کر رہے ہیں کہ یہ عوام ہمارے بارے میں اتنے غلط کمنٹس پاس کر رہے ہیں۔ ایسے حالات میں پھر ایک ہوسٹ کو ہمیشہ یہ خوف رہتا ہے کہ کہیں میں اکیلی نہ رہ جاؤں، کہیں مجھے ان غلط کمنٹس کی وجہ سے اپنی نوکری سے نکال نہ دیا جائے۔ اور ان سب کی وجہ سے ان کی خود اعتمادی کم ہو جاتی ہے۔ اور آہستہ آہستہ وہ ڈپریشن میں چلی جاتی ہے اور کھبی پوسٹ ٹرامیٹک سٹریس ڈس آرڈر کا شکار ہو جاتی ہے۔ اس کے علاوہ اس ہوسٹ میں پرسنالٹی ایشوز بننا شروع ہو جاتے ہیں کہ آخر کیوں میرے ساتھ ایسا ہو رہا ہے۔
ایڈوکیٹ پشاور ہائی کورٹ لائبہ گل شیر نے خواتین مارننگ شوز ہوسٹس کے بارے میں آنلائن ہیٹ سپیچ کے حوالے سے بتایا کہ ” ان ہوسٹس کے بارے میں ایسے الفاظ، تبصرے یا پیغامات بیان ہوتے ہیں جو ان کی عزت، کردار یا مقام کو بدنام کرنے کے لیے سوشل میڈیا یا انٹرنیٹ پر پھیلائے جاتے ہیں جو صنفی امتیاز، کردار کشی، دھمکیوں اور بدزبانی پر مشتمل ہوتی ہے۔ اکثر لوگ اپنی شناخت چھپا کر آسانی سے ہیٹ سپیچ کرتے ہیں۔
قانون میں کچھ سیکشنز اور سزائیں ہیں جیسا کہ
پاکستان پینل کوڈ (PPC) کے تحت دفعہ 153-A: گروہوں میں نفرت پھیلانا جس کی سزا5 سال تک قید ہے۔
دفعہ 505(2): نفرت انگیز بیان دینا: اس کی سزا 7 سال تک قید ہے۔
الیکٹرانک جرائم کی روک تھام کا قانون (PECA 2016) کے کچھ سیکشنز ہیں:
سیکشن 11: آنلائن ہیٹ سپیچ: جس کی سزا 7 سال تک قید ہے۔
سیکشن 20: آنلائن کردار کشی: جس کی سزا 3 سال قید یا 10 لاکھ روپے جرمانہ ہے۔
سیکشن 37: نازیبا یا نقصان دہ مواد کو بلاک کرنا (PTA کے ذریعے)۔ خواتین کو ان سب کے بارے میں معلوم ہونا چاہیے کہ اگران کے ساتھ ایسا کچھ ہوتا ہے تو قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنے لیے آسانی پیدا کر سکتے ہیں“
مینیجرعورت فاؤنڈیشن صائمہ منیر نے آنلائن ہیٹ سپیچ کے بارے میں بتایا کہ ”جتنا زیادہ سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ کا استعمال ہوتا جا رہا ہے اتنی ہی آنلائن ہیٹ سپیچ بھی زیادہ ہوتی جا رہی ہے۔ اور بالخصوص خواتین کے بارے میں تو پختون معاشرے میں آنلائن ہیٹ سپیچ خطرناک حد تک زیادہ ہوتی ہے کیونکہ پختون معاشرے میں اگرایک خاتون میڈیا پر آتی ہے تو وہ پختون روایات کے خلاف سمجھا جاتا ہے۔ والدین کو بچوں کو ہاتھ میں موبائل دیتے وقت یہ سمجھانا چاہیے کہ اس کا اچھے طریقے سے استعمال کیسے کرنا ہے کیونکہ جب یہی بچے بڑے ہوتے ہیں تو یہ پھر بڑی آسانی سے آنلائن ہیٹ سپیچ کرتے ہیں۔ تمام خواتین کو معلوم ہونا چاہیے کہ آنلائن ہراسمنٹ اور آنلائن ہیٹ سپیچ کے حوالے سے ایف آئی اے میں کس طرح اپنی رپورٹ یا شکایت درج کرا سکتے ہیں۔ پیکا ایکٹ میں بھی اس کی سخت سزائیں موجود ہے۔ میڈیا پر آنے اور ایک پروگرام کو ہوسٹ کرنے پر خواتین کا بھی اتنا حق ہے جتنا مردوں کا ہے کیونکہ یہ معاشرہ صرف مردوں کا نہیں بلکہ خواتین بھی اس کا حصہ ہے۔ کوئی بھی معاشرہ تب ترقی کر سکتا ہے جب اس میں انکلیوسیوٹی ہو، خواتین کی عزت ہو اور ان کو برابری حاصل ہو۔ آئیں مل کر اس معاشرے کو ہیٹ سپیچ سے پاک کر کے ہر کسی کو سکون سے جینے دیں۔

